نیویارک سے لاہور تک اوورسیز کو مبارک!!!

0
84
مجیب ایس لودھی

سالوں بعد ایک مرتبہ پھر پاکستان جانے کی ضرورت پڑ گئی ، ذاتی کاموں کی وجہ سے اسلام آبادپہنچا تو منظر ہی بدلا ہوا نظر آیا نہ صر ف ماحول میں نمایاں فرق محسوس ہوا بلکہ لوگوں کے رویوں اور اخلاقیات کو دیکھ کر سالوں پہلا والے پاکستان کی جھلک میرے ذہن میں نمایاں ہونے لگی ،بداخلاقی ، دھکم پیل ، ایک دوسرے سے پہلے نکلنے کی کوشش ایک عجیب سے اُکتاہٹ محسوس ہونے لگی ، خیر اللہ اللہ کر کے میٹرو واچ والے زاہد ملک کی مہربانی سے ہم اسلام آباد ائیرپورٹ کے رش سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے گھر پہنچ کر تھوڑا سکھ کا سانس لیا ۔اس ساری صورتحال میں ایک لمحے کے لیے یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ دنیا ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے لیکن پاکستان آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں ہم اس کو چھوڑ کر گئے تھے ۔
خیر کچھ آرام کے بعد منڈی بہاوالدین جانے کا اتفاق ہوا جہاں میں راجہ عمار یاسر کے کینو پراسسنگ فارم پر گیا جوکہ ایک بہترین تجربہ تھا ،25مربع زمین پر بنایا گیا کینو کا پراسسنگ فارم بہترین انتظامات سے لیس تھا ، یہ کینو صرف پاکستان نہیں بلکہ مڈل ایسٹ تک بھیجا جاتا ہے جس کو سن کو بہت خوشی ہوئی کہ راجہ عمار یاسر ملکی برآمدات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں ، میری دیگر اوورسیز پاکستانیوں سے بھی درخواست ہے کہ ہم زرمبادلہ بیرون ممالک سے وطن بھجوا کر ملکی معیشت بڑھانے میں تو کردار ادا کر ہی رہے ہیں لیکن اصل خدمت اس ملک کی زمین پر آ کر سرمایہ کاری کرنا ہی ہے جس طرح راجہ عمار یاسر ملک کی خدمت میں کردار ادا کر رہے ہیں باقی اوورسیز پاکستانیوں کو بھی اسی طرح چلنے کی ضرورت ہے ۔
خیر جس مقصد کے لیے میں پاکستان پہنچا تھا اسی سلسلے میں سی ڈی اے کے آفس جانا ہوا تو صورتحال دیکھ کر حیران رہ گیا جہاں لمبی لمبی داڑھیوں والے لوگ کام میں مصروف تھے جن میں سے ہر تیسرے شخص کے سر پر مہراب تھا جبکہ دیواروں پر لکھا گیا تھا کہ رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں تو دل کوذرا تسلی ہوئی کہ شاید کام بغیر پیسوں کے ہی ہوگا لیکن میں غلط ثابت ہوا ، اس موقع پر بھی مجھے پیسوں کا ہی استعمال کرنا پڑا ، شاید یہ کرپشن ہمارے ملک کی جڑوں میں رچ بس گئی ہے ، اگر اسلام آباد جیسے شہر میں سی ڈی اے کے آفس کا یہ حال ہے تو باقی شہروں کی صورتحال کیا ہوگی ؟عمران حکومت کو چاہئے کہ اس لعنت کی روک تھام کے لیے حکمت عملی ترتیب دے ، اگرمجھ جیسے شخص کو اپنا کام کرانے میں پیسے دینے پڑتے ہیں تو عام پاکستانی کی صورتحال تو بہت خوفناک ہوگی ۔
پاکستان میں کرپشن کے متعلق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ملک میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔پچھلے سال پاکستان میں کرپشن چار درجے اور بڑھ گئی، 2019 کا پاکستان کرپشن انڈیکس 120 تھا، 2020 میں 124 ہوگیا۔چیئرمین ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن قومی احتساب بیورو (نیب) کے ان دعوؤں کے باوجود بڑھی کہ دو برسوں میں نیب نے کرپشن کے 365 ارب روپے برآمد کیے۔کرپشن سے متعلق 180 ملکوں کی فہرست میں پاکستان کا رینک 124 جبکہ سکور 31 رہا۔2019 کی رپورٹ میں 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کی درجہ بندی 120 تھی ، 2020 کی رپورٹ کی تیاری میں 13 اداروں جبکہ 2018 سے لے کر 2020 تک کا ڈیٹا استعمال کیا گیا ۔رپورٹ کے ساتھ متعلقہ فائلز کے مطابق 13 میں سے آٹھ اداروں کا ڈیٹا پاکستان میں بدعنوانی کے تاثر کو مرتب کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اُمید کرتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کے جو ایک ڈیڑھ سال باقی ہے اس میں وہ اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی سخت قانون سازی کریں جیسا کہ انھوں نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے کربڑا اقدام کیا ہے۔اس سلسلے میں آج سے دس بارہ سال پہلے مرحوم سلیم ملک اور ہم سب نے ملک کر جو تحریک شروع کی تھی اسے ماضی قریب میں ظہر مہر ، شکیل شیخ اور شاہد رانجھا نے بام تکمیل تک پہنچایا ،اس کا کریڈٹ ان سب حضرات کو جاتا ہے ، امید ہے کہ مستقبل قریب میں اسمبلی میں بھی نمائندگی کا حق مل جائے گا۔خیر بات ہو رہی تھی پاکستان میں مصروفیت کی اسلام آباد میں کام ختم کرنے کے بعد اخبار فائنل کرنے کا دن آن پہنچا تو لاہور آفس جانا ہوا جہاں کام کی مصروفیت کے باوجود ساتھی ورکرز کے ساتھ خوشگوار وقت گزارا، مصروفیات ختم کرنے کے بعد دوبارہ اسلام آباد واپسی ہوئی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here