ٹیکساس واقعہ مسلم کمیونٹی کیلئے نیا چیلنج!!!

0
65
مجیب ایس لودھی

امریکہ میں مقیم مسلم کمیونٹی نے اپنے اوپر سے” دہشتگردی” کا ٹیگ ہٹوانے کے لیے سخت محنت کی ہے، اور اس کے لیے سالوں کی مہم چلائی گئی ہے تب جا کر آج مسلم کمیونٹی امریکہ میں پر اعتماد طریقے سے زندگی بسر کر رہی ہے ، نائن الیون کے بعد مسلمانوں کو جس طرح دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی وہ اپنی مثال آپ ہے ، میرے نزدیک مسلم کمیونٹی نے نائن الیون کے بعد جس بہادری سے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے لیے نفرت کے ماحول میں محبت اور امن کا راستہ بنایا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے لیکن اس محنت سے حاسل کردہ امن کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارے مسلم رہنمائوں کو مزید کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جبکہ کمیونٹی کو بھی اپنے طور پر دیگر مذاہب کے ساتھ ممکنہ اختلافات کو بھلا کر ایک پیج پر آنا چاہئے۔ٹیکساس کی یہودی عبادگاہ میں ایک مسلم کی جانب سے یہودی عبادت گزاروں کو اغوا کرنے کے واقعہ نے مسلم کمیونٹی کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مزید متحرک ہوکر مسلم معاشرے میں سدھار کے لیے کردار ادا کریں، مسلمان امریکہ سمیت دنیا بھر میں کسی بھی مذہب کیخلاف نہیں ہیں، مسلمانوں کے متعلق غیر مسلمز اور غیرمسلمز کو مسلمانوں کے متعلق کچھ شبہات ضرور ہیں جن کو اب ختم کرنے کا وقت آگیا ہے ، ہمیں بطور مسلم کمیونٹی چاہئے کہ یہودی کمیونٹی سے دشمنی کی بجائے مشترک اقدار کو تلاش کرتے ہوئے پرامن راستہ اپنایا جا سکے، امریکہ سمیت دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کے متعلق قومی سطح پر حکام کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے ، مسلم خاتون نمائندہ الہان عمر نے بھی اس خوفناک اندرونی مسئلے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے حکومت سے ریاستی سطح پر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔مسلم لیڈرشپ انیشی ایٹو کے بانی پروفیسر عبداللہ اینٹپلی نے کہا کہ ہفتے کے روز ٹیکساس کی عبادت گاہ میں 10 گھنٹے کا یرغمالی ڈراؤنا خواب مسلم کمیونٹی کو اخلاقی طور پرمتاثر کرے گا جس پر قابو پانے کے لیے سب کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا، انہوں نے لکھابغیر کسی اور تردید، برطرفی اور یا مسائل کو معمولی سمجھے بغیر ہمیں مختلف مسلم کمیونٹیز کے اندر بڑھتی ہوئی یہود دشمنی پر ایمانداری سے بات کرنے کی ضرورت ہے،جی ہاں، شمالی امریکہ میں رہنے والے ہم مسلمانوں کو بلا شبہ یہود دشمنی کا ایک بڑھتا ہوا مسئلہ درپیش ہے اور بظاہر ہم نے ابھی تک اس مسئلے کو ایمانداری، اخلاقی فرض اور درست طریقے سے حل کرنے کیلئے ضروری نہیں سمجھا ہے، لیکن ہمیں دوبارہ کرنا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ امریکہ کی مسلم کمیونٹی کو نفرت پھیلانے والے اور اسلام کو مزید پسماندہ کرنے والے ایک چھوٹے گروہ کے ہاتھوں یرغمال بنایا جا رہا ہے۔میرے نزدیک ٹیکساس کا واقعہ ایک برطانوی مسلمان کی جانب سے بوکھلاہٹ میں اٹھایا گیا قدم تھا جس کے حوالے سے امریکہ کی مسلم کمیونٹی پر تنقید نہیں ہونی چاہئے ، امریکہ کی مسلم کمیونٹی نے ہمیشہ معاشر ے میں امن ، رواداری اور محبت کو پروان چڑھانے میں مدد دی ہے ، مسلم کمیونٹی کے زیر اہتمام انٹرفیتھ ڈائیلاگز کا انعقاد بھی کیا جاتا رہا ہے جس سے اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان پھیلائی جانے والی غلط معلومات کا تدارک کا باعث بنا ہے ۔یہ مسلم کیونٹی کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ کانگریس کے ایوان نمائندگان نے مسلم نمائندہ الہان عمر کی جانب سے پیش کردہ اسلامو فوبیا کی نگرانی کے بل کو اکثریتی رائے سے منظور کیا، بل کو 212 کے مقابلے میں 219ووٹوں سے منظور کیا گیا ۔اب مسلم کمیونٹی کو چاہئے کہ وہ ٹیکساس جیسے مزید واقعات ہونے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کرے تاکہ مسلمانوں پر جو ایک اعتماد کی فضا قائم ہوئی ہے اس کو برقرار رکھا جا سکے۔یہ بھی مسلم کمیونٹی کی بڑی کامیابی ہے کہ ریاست کے اہم عہدوں پر مسلمانوں کی بڑی تعداد تعینات کیا جا رہا ہے ، صدر بائیڈن نے اہم عہدوں کیلئے مسلم نوجوانوں کی خدمات حاصل کی ہیں جبکہ بروس بلیک مین کے کامیاب ہونے پر چودھری اکرم آف رحمانیہ کا ٹرانزیشن ٹیم کا حصہ بن جانا بھی مسلم کمیونٹی پر اعتماد کی بڑی وجہ ہے جسے آئندہ دور میں بھی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ مسلم کمیونٹی اپنی رضاکارانہ کاوشوں کی وجہ سے بھی امریکہ کے معاشرے میں اپنی مثبت پہچان بنانے میں کامیاب ہوئی ، کرونا وائرس ہو ، سیلاب ہو ، طوفان سے تباہی کا معاملہ ہو ، مسلم امدادی تنظیمیں ہر مشکل وقت میں ہمیشہ امریکہ کے عوام کے ساتھ کھڑے ہوئی ہیں، ضرورت مندوں میں مفت کھانا ، کپڑے اور بسترے فراہم کیے گئے ہیں، کسی بھی مذہبی تفریق اور قومیت کی تفریق سے آزاد ہو کر مسلم تنظیموں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر ضرورت مندوں کی مدد کی ہے اور مجھے پوری امید ہے کہ مسلم اور پاکستانی کمیونٹی امریکہ میں اپنے اعتماد پر آنچ نہیں آنے دیگی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here