امریکہ کا بنیادی ڈھانچہ بگڑ رہا ہے!!!

0
335
کامل احمر

امریکہ کی آج آبادی33کروڑ ہے جو اگر پچاس ریاستوں میں تقسیم کی جائے تو یورپ کے پچاس ملکوں سے زیادہ آبادی والے ملک بنتے ہیں کیلیفورنیا،ٹیکساس فلاریڈا اور نیویارک بتدریج سب سے زیادہ آبادی والی ریاستیں ہیں جن کی آبادی کیلیفورنیا،4کروڑ، ٹیکساس تین کروڑ، فلاریڈا22کروڑ اور نیویارک تقریباً20کروڑ آبادی والی ریاستیں ہیں اور اسی لحاظ سے ان کے الیکٹوریل ووٹ بھی ہیں یعنی کیلیفورنیا55ووٹ، ٹیکساس، ٹیکساس38 ووٹ، فلاریڈا 29 ووٹ اور نیویارک29ووٹ رکھتے ہیں۔کل ملا کر151ووٹ بنتے ہیں صدارتی انتخاب میں بعض اوقات یہ ووٹ اُمیدوار کو صدر بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔جارج ڈبلیو بش اور ڈونلڈ ٹرپ ان ہی ووٹوں سے صدر بنے تھے۔امریکہ کی دو پارٹیاں ہیں ڈیموکریٹک نیلا رنگ اور ری پبلکن سرخ رنگ اور جو ڈیموکریٹک کی اکثریت والی ریاستیں ہیں اور انتخاب میں اکثریت سے جیت جاتی ہیں تو الیکٹوریل ووٹ بھی ان کے تھیلے میں گر جاتے ہیںاور نتائج جب باہر آتے ہیں ،دونوں طرح کے ووٹوں کی تعداد بتائی جاتی ہے جس سے عوام کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ کون جیتے گا۔پچھلے الیکشن میں کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا ہمارے اندازے کے مطابق ووٹوں کی گنائی میں تاخیر اور ڈاک کے ووٹوں کا تاریخ نکل جانے کے بعد اندراج غلط کام تھا ایک طرف الیکشن کی پوری مشینری، آدمی جنرلز، میڈیا اور بڑی ڈیموکریٹ ریاستوں کے عوام ٹراپ کو ہرانے کے لئے کوشاں تھے دوسری طرف پنسلوانیا میں کافی تاخیر سے نتائج آنے کے بعد ریپبلکن کو شک وشبہ میں ڈال دیا تھا جو آج تک ہے بش کو جتوانے میں سپریم کورٹ نے بڑا کردار ادا کیا تھا کہ البرٹ گور نے فلاریڈا میں کائوئٹنگ پر شبہ ظاہر کیا تھا اور دوبارہ گنتی جاری تھی کہ اچانک سپریم کورٹ نے بش کی جیت کا اعلان کردیا تاریخ میں یہ سب شاید نہ لکھی جائے کہ بش کو ایک ایجنڈے کے تحت لایا گیا تھا اور جب سے اب تک ایسا ہی ہورہا ہے۔اور اس ملک کے بنیادی ڈھانچہ میں بگاڑ پیدا کر دیا گیاہے۔معاشرتی، معیشی اور دوسری اہم چیزوں میں جن کا تعلق عوام سے ہے اور اب یہ ملک وہ نہیں رہا جو رونلڈ ریگن کے آنے سے پہلے تھا۔ریگن نے آتے ہی ملک کو طرح طرح کی لابیوں کے حوالے کردیا۔سب سے پہلے بنکاری کے شعبوں کو آزادی دے دی مطلب یہ کہ ڈی ریگولیٹ کردیا کہ وہ اپنی من مانی کریں نتیجے میں صارفین بنک کی من مانی کا شکار بنے اور بن رہے ہیں۔ریگنی نے یونین سازی کو رکاوٹ سمجھتے ہوئے قانون میں تبدیلی کی۔ایئر کنٹرول ملازمین نے ہڑتال کی تو انہیں فائر کر دیا گیا۔بڑی بڑی کمپنیوں تجارتی اداروں، ہسپتالوں کو ایک دوسرے میں صنم کرنے کی اجازت دے دی۔باہمی فائدہ کو فروغ دیا۔حالیہ صحت کا انشورنس دینے والی کمپنیAETNAکو فارمیٹیکیل کمپنیCVSنے خرید لیا۔جہاں باہمی فائدہ دونوں کا ہے دوسرے معنوں میںCOEFLICKT OF INTERESTباہمی مفادات کو فروغ ملا۔اور عوام کو دقتیں اور مہنگائی کا شکار ہونا پڑا اور یہ سب کرنے کی اجازت دینے والا جج تھا۔ہمیں پاکستانی عدلیہ کے ججز یاد آگئے یعنی ججز پر ہر وہ کام کرسکتے ہیں۔جو عوام کے لئے ناپسند ہوں اور کارپوریٹ امریکہ کے لئے منافع کا باعث بنیں۔ریگن سے پہلے دولت صرف ایک فیصد لوگوں میں نہیں سمٹی تھی کارپوریشن کےCEOکی تنخواہیں اور بونس بڑھایا گیا اور انہوں نے کمپنی کے شیر بڑھانے کے لئے ملازمین کو خارج کیا بڑی تعداد میں بونس نام کی چیز ایک عام آفس ملازم کے لئے ناپید ہوگئی۔ہیلتھ کیر نہ ہونے برابر ان ساری باتوں کا احاطہ اور اس سے پیدا ہونے والی خرافات کو مشہور ڈاکومنیٹری بنانے والے مائیکل مور نےCAPITALISM A LOVE STORY”سرمایہ داری،محبت کی کہانی” میں خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔یہاں تک آتے آتے ہم یہ کہینگے کہ دولت سمٹ کر امریکہ کے14بڑے خاندانوں میں ہے۔اور پندرویں الیکٹرک کار کے لئے مشہور ایلن مسک ہیں۔ان لوگوں کی ہر شہ پر اجارہ داری ہے۔جس طرح اس ملک میں دو پارٹیوں کاراج ہے۔اسی طرح دو میڈیا ویر ہائوس ہیں۔جو ایک دوسرے پر کیچڑ تو اچھالتے ہیں لیکن ارب پتی شرفاء کے خلاف کم ہی بولتے ہیں آخر دنیا کی دولت چند خاندانوں میں کیسے بٹ گئی سادہ جواب ہے۔کمپیوٹر کے آنے کے بعد لیبر فورس میں کٹوتی ہوئی۔ملازمین کے لئے فراہم کی گئی سہولتوں میں کمی پیدا کی گئی اور ان ہی لوگوں کی سازشوں سے جو ان کے مفاد میں تھے اور ہیں جو انکی بنائی اور انکے پیسے سے پلنے والی لابیاں ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ نیا ورلڈ آرڈر کیا ہوگا۔اور اگر صدر پاپولر ووٹ سے جیت بھی رہا ہے تو الیکٹوریل ووٹ سے ہرایا جاسکتا ہے۔اور اب ان الیکٹوریل ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے کہ میلوں کے فاصلے سیکنڈوں میں انٹرنیٹ کی مدد سے طے کئے جاسکتے ہیں۔پچھلے الیکشن میں برنی سینٹر ہیں پرائمری روڈ میں آگے تھے۔اور بائیڈین بہت پیچھے لیکن دوسری صبح سو کر اٹھے تو بائیڈین آگے تھے پچھلا ایجنڈا ٹرمپ کو صدر بنانا تھا اور کارپوریشنز نے اپنی من مانی اور بنیادی ڈھانچے کو مزید بگاڑنے کے لئے بائیڈین کا چنائو کرایا اور انہیں جو نائب صدر دی گئی وہ بھی اتنی ہی ناکارہ نکلی کہ بائیڈین کی مقبولیت کا گراف ایک سال سے پہلے ہی35فیصدی پر آگیا۔بائیڈین کچھ نہ کرسکے رہی سہی کثرCOVIDنے پوری کردی اور وقت کے ساتھ مہنگائی اور اشیاء کی ناپیدگی کا بھی آغاز ہوگیا۔کہنے کو ملازمتیں بڑھیں لیکن آفس بند ہوگئے لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں جن کا کوئی سیرویژں نہیں۔آپ کسی بھی ادارے کو فون کریں تو ایک سے دو گھنٹے اور جو اب ندار امریکہ ایسا تو نہ تھا۔لیکن یہ لالچی لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔اور بہتری کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔اب یہ گورے اور کالے امریکہ کی جنگ ہے جن جن ریاستوں اور شہروں میں ڈیموکریٹک ہیں وہاں قانون کا مذاق ہے سندھ حکومت کی طرح من مانی کی جارہی ہے۔کہ وفاق یعنی فیڈرل گورنمنٹ صرف ٹیکس وصول کرتی ہے اور اپنی من مانی کرتی ہے حال ہی میں سوشل سکیورٹی محکمہ نے سینئر شہریوں کی ہیلتھ کیر پارٹ بی کہ ماہانہ ادائیگی بڑھا کر172ڈالر کی ہے یعنی22ڈالر کا اضافہ جب کہ سوشل سکیورٹی چیک میں اضافہ صرف5.9%ہوا ہے۔اور مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے صرف کھانے پکانے کا تیل دوگنی قیمت سے زیادہ فروٹ، سبزی جوس کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا جارہا ہے۔COVIDکی وجہ سے سامان کی ڈلیوری رکی پڑی ہے لیکن ہر سامان دستیاب ہے لوگوں میں بھگڈر ہے ضرورت کی اشیاء بڑے اسٹوروں میں شیلف سے غائب، پاکستان زندہ باد جی ہاں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here