چپّا چپّا زمین شہیدوں کے خون سے آبیار ہوگئی !!!

0
57
حیدر علی
حیدر علی

5اگست کے دوپہر تک بنگلہ دیش کے طلبا جو پولیس سے صف آرا تھے ، پولیس کے ربر بلٹ یا بلٹ سے اُن کا جسم لہو لہان ہورہا تھا، لیکن اُن کا عزم متزلزل نہیں تھا، وہی طلبا شام کو اُسی پولیس اسٹیشن کی رکھوالی کرنے پر مامور ہوگئے جسے کچھ دیر پہلے انہوں نے تباہ کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ گیم چینج ہوچکا تھا، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ استعفیٰ دے کر بھارت فرار ہوگئیں تھیں، اُن طلبا کو ہائی کمانڈ کی جانب سے یہ حکم ملا تھا کہ اُن کی جدوجہد فتح و کامرانی سے ہمکنار ہو کر اپنے مقاصد کو حاصل کرلیا ہے ، اسلئے اب وہ مظاہرین کو سرکاری دفاتر ، مخالفین کے گھرو ں اور پولیس اسٹیشن کو جلانے سے روکیں،میر پور، ڈھاکا کے پولیس اسٹیشن پر جب ایک درجن طلبا کی ٹیم پہنچی تو اُس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی،اُنہوں نے پولیس اسٹیشن کے اندر جو کچھ بھی پایا اُس میں ایک شاٹ گن جو پولیس اسٹیشن کے بیک یارڈ میں پڑا ہوا تھا، اُس کے علاوہ ایک گرینیڈ، دو ٹوٹا ہوا اسلحہ اور رائفل کی گولیاں تھیں، طلبا نے پولیس سٹیشن کے مرکزی دروازے کو بانس اور لکڑی کے تختے سے بند کردیا بعد ازاں اُنہیں یہ بھی حکم ملا کہ وہ میرپور میں ٹریفک کی روانی کی نگرانی کریں ، کیونکہ سارے ٹریفک آفیسرز خوف سے بھاگ گئے ہیں،کچھ ایسی صورتحال میں پولیس کیلئے اپنے فرائض کو انجام دینا ناممکن ہی ہے،صرف ڈھاکا میں گذشتہ پیر کے دِن 12 افراد پولیس کی گولیوں یا آپس کے تصادم میں ہلاک ہوگئے تھے، بنگلہ دیش کے دوسرے شہروں یاقصبوں کی کہانی تو علیحدہ ہے، ایک مشتعل ہجوم نے سراج گنج کے پولیس اسٹیشن پر حملہ کرکے 13 پولیس والوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، جبکہ پانچ افراد شیخ حسینہ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تصادم میں ہلاک ہوگئے جس سے اُسی ڈسٹرکٹ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 18 ہوگئی،لکسمی پور میں بھی مظاہرین اور عوامی لیگ کی حمایتی جماعت چھاترا لیگ کے مابین تصادم میں آٹھ افراد ہلاک ہوگئے ، جن میں تین کو رائفل کی گولی لگی تھی اور باقی ماندہ پانچ کوتشدد کے ذریعہ ہلاک کیا گیا تھا، نرسنگدی میں عوامی لیگ کے کم ازکم چھ رہنماؤں کو تصادم کے دوران ہلاک کردیا گیا،یہ واقع ٹھیک مسجد کے سامنے میونسپلٹی بلڈنگ کے بغل میں پیش آیا تھا، فینی میں آٹھ افراد اُس وقت ہلاک ہوگئے جب عوامی لیگ کے حمایتوں نے مظاہرین پر حملہ کردیا ۔رنگپور کے شہر میں آپس کے تصادم میں چار افراد ہلاک ہوگئے، جن میں ایک کی شناخت ہردھن رائے کے نام سے ہوئی ہے ، اُس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ پرشورم تھانہ عوامی لیگ کا صدر اور رنگپور شہر کا کونسلر بھی تھا،سلہٹ میں کم ازکم چار افراد کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ہے اور پچیس جن میں پولیس اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش شامل ہیں اُس واردات میں زخمی ہوئے ہیں۔ مظاہرین اور پولیس کے مابین کورٹ پوائنٹ ایریا کے قریب دِن کے بارہ بجے مقابلہ ہوا تھا،پولیس نے شاٹ گن، آنسو کے شیلز اور اِسٹن گرینیڈز کو استعمال کرکے مجمع کو منتشر کرنے کی کوشش کی تھی۔ بوگرا میں متعدد تصادم میں پانچ افراد ہلاک اور بے شمار زخمی ہوگئے ہیںجن میں 32 ہسپتال میں داخل ہیں۔اُن میں 24 سالہ منیرالاسلام بھی گولی لگنے سے ہلاک ہونے والوں میں شامل ہے، معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے مظاہرین پر اُس وقت فائرنگ کی تھی جب وہ ڈپچانچیہ پولیس اسٹیشن پر حملہ کر رہے تھے،پبنا میں تین افراد ہلاک اور پچاس زخمی عوامی لیگ اور مظاہرین کے مابین تصادم میں ہوے ہیں، بنگلہ دیش گوں ناگوں حالات سے دوچار ہے ، حملہ آوروں کے آگ لگانے ، عوامی لیگ کے رہنماؤں کے گھروں اور اُن کے دفاتر اورپولیس اسٹیشن کو نذر آتش کرنے ، قانون نافذ کرنے والوں کی گاڑیوں اور ایمبولنس کوجلانے کی وارداتوں کا سلسلہ ایک معمول بن گیا ہے،ٹیلی ویژن اوِر اخبارات میں ہلاک ہونے والوں کی جو تعداد پیش کی جارہی ہیں ، حقیقی معنوں میںاموات اُس سے دس گنا زیادہ ہیں، اقلیت فرقہ کے افراد کی ہلاکت کی تعداد کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا ہے،مظاہرین کی اکثریت نہتی ہے جبکہ عوامی لیگ اور اِسکی حمایتی جماعتوں کے کارکن جدید اسلحہ سے مسلح ہیں،بالفاظ دیگر بنگلہ دیش کا چپا چپا شہیدوں کے خون سے آبیار ہوچکا ہے۔گذشتہ ہفتے 9 اگست کا وہ دِن بھی آپہنچا جب بنگلہ دیش کی نئی کا بینہ کے اراکین نے حلف اٹھالیا،تقریب سے خطاب کرتے ہوے پروفیسر محمدیونس جو چیف ایڈوائزر کے عہدے پر فائز ہوے ہیں اور کابینہ کی 27 وزارت اُن کے زیر ماتحت ہیں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” آج بنگلہ دیش کو دوسری آزادی ملی ہے” تاہم دوسری آزادی کا سہانا خواب اُنہیں کتنے دِن تک نظر آئیگا یہ بھی ایک خام خیال ہے۔ پروفیسر محمد یونس کو عوامی لیگ کے خلاف ایک زبردست جنگ لڑنی پڑے گی اور اُسے جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا پڑیگا، ورنہ عوامی لیگ اُنہیں دودھ سے مکھی کی طرح باہر پھینک دیگی،. محمد یونس ایک ہفتے کی پیدا وار ہیں اور عوامی لیگ ایک صدی سے کوچہ سیاست میں سر گرم ہے،بلاشبہ اُمید کی ایک کرن حلف لینے والے دو نوجوان ناہید اسلام اور آصف محمود ہیں، پہلی جولائی کو جب کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک شروع ہوئی تھی تو وہ ڈھاکا یونیورسٹی کے عام طالب علم تھے لیکن مظاہرے کے دوران اُنہوں نے مظالم ڈھائے ، لیکن اپنا سر جھکانے یا اپنے حقوق کے حصول کیلئے پیچھے ہٹ جانے سے انکار کردیا،پولیس کے اہلکاروں نے اُنہیں اغوا کیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا لیکن وہ ہمالیہ کی چوٹی کی طرح ایستادہ رہے بعد ازاں پولیس افسروں نے اُن چھ کوآرڈینیٹرز کو جن میں ناہید اور آصف بھی شامل تھے طاقت کے زور پر ایک ویڈیوں میں یہ کہلوایا کہ وہ طلبا تحریک سے دستبردار ہوگئے ہیں لیکن جب وہ جیل سے باہر نکلے تو پھر قدم با قدم تحریک میں شامل ہوگئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here