سیاست کے عجیب ڈھنگ!!!

0
133
جاوید رانا

قارئین کرام! جس وقت میرا یہ کالم آپ کے زیر مطالعہ ہوگا میں اُس وقت انشاء اللہ پاکستان میں ہونگا۔ وطن عزیز کا میرا یہ وزٹ ایک طویل عرصے بعد ہوا ہے اور اس کا بنیادی مقصد اپنے افراد خاندان، پرانے احباب و قرابت داروں سے ملاقات ہے۔ اگرچہ میرا یہ دورہ نجی نوعیت کا ہے لیکن بطور ایک صحافی میری یہ ذمہ داری بھی ہے کہ میں اپنے فرائض منصبی سے کوتاہی نہ کروں اور میں اس حیثیت سے نہ صرف اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے اپنے کالم اور اخبار کے تسلسل کو جاری رکھوں گا بلکہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ و میڈیا سے ملاقاتیں بھی کروں گا اور پاکستان کی سیاسی و معاشی صورتحال سے آپ کو آگاہی دیتا رہوں گا۔ میرا شکاگو آفس بھی آپ کی خدمت و معاونت کیلئے حسب معمول اپنے فرائض کی ادائیگی انجام دیتا رہے گا۔ سیاست کے حوالے سے اس وقت عالمی اور پاکستان کی سطح پر جس طرح کا منظر نامہ سامنے آرہا ہے، وہ آنے والے برسوں میں حالات میں بہت سے اسٹریٹجک اور مفاداتی تعلقات و تفادات کا باعث بن سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر یہ نظر آرہا ہے کہ ایک بار پھر 1990ء سے قبل کی سرد جنگ اور دو بلاکس پر مشتمل دنیا کا منظر نامہ بننے جا رہا ہے۔ ہم اس سے قبل بھی اپنی معروضات میں تحریر کر چکے ہیں کہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی ترقی دنیا کی طاقتور ترین مملکت کیلئے درد سر بنی ہوئی ہے اور وہ کسی بھی طرح چین کے اس ترقیاتی سفر اور دنیا میں اس کے اثرات کو زائل کرنے کی تگ و دو میں نت نئے حربے آزمانے کو تیار ہے۔ ان حربوں میں تازہ ترین اقدام امریکہ کی جانب سے بلائی جانیوالی ورچوئل ڈیمو کریسی سمٹ ہے۔ اس کانفرنس یا سمٹ میں دنیا کے 110 ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ روس، چین، ایران، افغانستان اور دیگر بعض ممالک اس میں شامل نہیں ہیں۔ جنوبی ایشیاء سے صرف چار ممالک کو دعوت دی گئی ہے جس میں پاکستان، بھارت، نیپال اور تائیوان شامل ہیں۔ دوسری جانب امریکہ نے چین میں ہونیوالے سرمائی اولمپکس میں شرکت سے بھی انکار کر دیا ہے۔ اُدھر چین نے تائیوان کو امریکہ کی جانب سے اس ورچوئل سمٹ میں دعوت دیئے جانے پر سخت احتجاج عالمی سطح پر کیا ہے۔
اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی ہے کہ روس چین، پاکستان، ایران اور بعض وسط ایشیائی ریاستوں اور ترکی کے درمیان ایک نیا اتحاد معرض وجود میں آرہا ہے جبکہ امریکہ اس اتحاد کے اثرات کو دھندلانے اور اپنی چودھراہٹ برقرار رکھنے کیلئے بھارت کو اپنے آلۂ کار کے طور پر سامنے لانا چاہتا ہے۔ بھارت کو چین سے چھیڑ خانی کرنے پر ہزیمت کا جو سامنا کرنا پڑا وہ چین کے حوالے سے امریکہ کی امیدوں پر اوس ثابت ہوا، دوسری طرف بھارت کے ایران، افغانستان و نیپال سمیت خطے میں کسی سے بھی تعلقات اچھے نہیں ہیں، ایسی صورتحال میں بھارت، امریکہ کیلئے ایک ناکارہ پُرزہ ہی ہونے کا سبب بنتا ہے۔
ان تمام حالات میں امریکی ایڈمنسٹریشن کا پاکستان کی طرف ڈومور کا سلسلہ مزید دراز کرنا بعید از قیاس نہیں بنتا۔ پاکستان کو ورچوئل کانفرنس میں دعوت اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آتی ہے، خصوصاً امریکی انتظامیہ کی اس تمہید یا تنبیہ کے بعد کہ جو ملک اس سمٹ میں شرکت نہیں کرتا اسے جمہوری ریاست کے زمرے سے خارج کر کے متیعنہ معاشی و دیگر پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کیلئے اس دعوت اور تنبیہ کے بعد فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ اس کانفرنس میں شرکت کرے یا نہ کرے۔ ایک جانب پاکستان کی چین سے پائیدار دوستی و معاشی تعلقات تھے تو دوسری طرف دنیا کی طاقتور ترین ریاست سے تعلقات کا معاملہ تھا، مزید یہ کہ خطے کی موجودہ صورتحال اور بدلتے ہوئے زمینی حقائق بھی پیش نظر تھے۔ پاکستان نے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے لیکن امریکہ سے تعلقات کا سلسلہ دراز رکھنے کا فیصلہ کر کے دور اندیشی کا ثبوت دیا ہے تاہم اس خدشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ طاقتور ریاست کی انتظامیہ سکون سے نہیں بیٹھے گی جس کیلئے ہماری ریاست و حکومت کو بہت سے وسیع النظر اور مدون اقدامات و فیصلے کرنے ہونگے۔ اس وقت دنیا کی سیاسی فضاء دو بڑے بلاکس کی طرف گامزن نظر آتی ہے اور دو کشتیوں میں سوار ہونے کی پاداش نقصان کا باعث بھی ہو سکتی ہے۔ نقصان کے حوالے پر بھارت کے سابق آرمی چیف اور حالیہ چیف آف ڈیفنس بپن راوت کی ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کا سانحہ بھی سامنے آیا ہے، واضح رہے کہ اس واقعہ سے تقریباً 48 گھنٹے قبل بھارت کا میزائل ڈیفنس سسٹم S-400 کی خریداری کا روس سے معاہدہ ہوا تھا اور اس کا اہم کردار بپن راوت تھا۔ حادثے کے بارے میں پہلے تو یہ کہا گیا کہ ہیلی کاپٹر درخت سے ٹکرایا تھا لیکن بعد ازاں حکومتی ورژن آیا کہ ٹکرانے سے پانچ منٹ قبل ہیلی کاپٹر دھماکے سے پھٹ چکا تھا اس حوالے سے مختلف تھیوریز سامنے آرہی ہیں لیکن سوشل میڈیا پر ایک تھیوری زور و شور سے وائرل ہوئی ہے کہ جب عام کی پیٹیوں میں بم پھٹنے سے اپنے سفیر کی قربانی بھی دی جا سکتی ہے تو دو کشتیوں کی سواری میں ایجنٹ ملک کے CDS کو کیوں نہیں سبق دیا جا سکتا۔ خیر یہ تھیوریز تو اپنی جگہ لیکن دنیا میں برتری اور بلاکس میں تقسیم کے سیاسی رنگ ڈھنگ یقیناً بدل رہے ہیں اور وقت کا تقاضہ ہے کہ حالات کو سمجھ کر اقدامات و فیصلے کئے جائیں۔
سیاست کے رنگ ڈھنگ تو وطن عزیز کے بھی بہت عجیب ہوتے جا رہے ہیں آڈیو، ویڈیو اور بیان حلفی کے کھیل تو جاری ہیں اور ہم اس پر بہت کچھ لکھ چکے ہیں، گزشتہ دنوں ایک اور تماشہ سامنے آیا۔ وزیراعظم کو 10 دسمبر کو گرین لائن کا ٹرائل افتتاح کرنا تھا۔ نواز لیگ والے ایک دن قبل اس توجیح پر کہ گرین لائن کا سنگ بنیاد اور آغاز نوازشریف نے کیا تھا علامتی افتتاح کرنے پہنچ گئے۔ علامتی افتتاح تو کیا ہونا تھا، گھر یا افتتاح کی رونق ہنگامے پر موقوف ہوئی۔ لاٹھی چارج ہوا اور احسن اقبال اپنا ہاتھ تڑوا رکر شکوہ اور بین کرتے رہے۔ مزے کی بات کہ دو سگے بھائی محمد زبیر (ن لیگ) اور اسد عمر (پی ٹی آئی) ایک دوسرے سے محاذ آرائی (لفظی) میں آمنے سامنے تھے۔ نواز لیگ کے بے تُکے اور بھونڈے و بچگانہ روئیے تو ان کے اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو پانے کے سبب سمجھ میں آتے ہیں لیکن حکومتی ارباب و ترجمان کیوں تند و تیز لہجوں اور رویوں پر تُلے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی بلدیاتی انتخابات اور بعد ازاں عمومی انتخابات کے تناظر میں ہر جانب سے تندی و تیز طراری، الزامات، دعویداری کے تیر برسائے جا رہے ہیں اور یوں وطن عزیز کی سیاست عجیب رنگ و ڈھنگ میں ڈھل رہی ہے۔ سیاست میں ٹھنڈے اور دھیمے مزاج کے حامل، سیاست کے پی ایچ ڈی آصف زرداری کا میاں نوازشریف کی حب الوطنی پر سوال اس کا بڑا حوالہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here