پاکستان میں الیکشن کی آمد آمد ہے، سیاسی جماعتوںکی انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں ، ایک سیاسی جماعت کے علاوہ تمام جماعتیں الیکشن میںبھرپور حصہ لے رہی ہیں ، عدلیہ، نگران حکومتوں اور پاک فوج کی جانب سے صرف ایک جماعت تحریک انصاف کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا ہے ، اس جماعت سے انتخابی نشان بھی واپس لے لیا گیا ہے ، اس کے رہنمائوں کو زبردستی سیاست سے نکال باہر کیا گیا ہے جبکہ جماعت کے سربراہ کو مختلف کیسوںمیں اڈیالہ جیل میں قید کر رکھا ہے، ان تمام حالات کے دوران سلیکٹڈ الیکشن کے لیے راہ ہموار کی جار ہی ہے ، الیکشن میں حکمرانوں کی کھیر بٹنے والی ہے جس میں سے تمام جماعتوں کو حصہ ملے گا، یعنی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت میں ایسی کھچڑی پکے گی کی شاید آئندہ بھی حکومت دو یا زیادہ سے زیادہ تین سال کی مہمان بنے گی ، ایسے میں جمہوری حکومت کی بدترین شکل آٹھ فروری کے بعد دیکھنے میں ملے گی۔ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم بدعنوانی کے الزام میں جیل چلے گئے اور ان کی قانونی مسائل میں اضافہ ہوا۔۔ایک دوسرے وزیر اعظم ، جو بدعنوانی کے مقدمات میں سزا یافتہ ہیں ، چار سال بعد ملک واپس لوٹے اور انہوں نے اپنی قانونی پریشانیوں کو غائب ہوتے دیکھا ہے۔پاکستان کیسابق وزیراعظم نواز شریف، جو کچھ عرصہ پہلے تک سیاسی مداخلت کے لیے فوج پر تنقید کر رہے تھے، اب بظاہر اس طاقتور ادارے سے، تجزیہ کاروں کے مطابق، مذاکرات کے بعد پاکستان واپس لوٹے ہیں۔دوسری طرف سابق وزیر اعظم عمران خان، جو کبھی اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ اپنی قربت کا دعویٰ کرتے تھے ، انہوں نے اپنی برطرفی اور بڑھتی ہوئی قانونی مشکلات کے لئے انہیں ہی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔عمران خان ، جوپانچ اگست سے جیل میں ہیں ، انہیں بدعنوانی اور غداری سمیت بہت سے الزامات کا سامنا ہے۔عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزد کردہ امیدواروں کی حتمی فہرستوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ملک بھر میں درجنوں ایسی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں ہیں جہاں ایک ہی گھر یا خاندان کے افراد کو میدان کو اْتارا گیا ہے۔اگر کسی سیاسی خاندان کے سربراہ قومی اسمبلی کی نشست پر کسی جماعت کے امیدوار ہیں تو انہی کے بھائی، بیٹے، بیٹی، بہو یا بیگم اْسی شہر یا علاقے سے دیگر قومی و صوبائی نشستوں سے امیدوار نظر آتے ہیں اور پاکستانی سیاست میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ دہائیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے اور اس میں بڑی سیاسی جماعتوں میں سے کسی کو بھی استثنیٰ نہیں ہے۔موروثی یا خاندانی سیاست پاکستان میں ایک منفی اصطلاح کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ موروثی سیاست کا یہ معاملہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک، خاص کر جنوبی ایشیائی ممالک میں خاندانی سیاست کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ تاہم دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں موروثی سیاست کی شرح بہت حد تک بلند ہے۔ پاکستان سمیت دنیا میں کوئی جمہورت ابھی اتنی ‘میچور’ نہیں ہوئی اور نہ ہی کہیں سیاسی پارٹیاں اتنی مضبوط ہوئی ہیں کہ صرف پارٹی کے نام کی بنیاد پر الیکشن میں ووٹ حاصل کیے جا سکیںاگرچہ پاکستان میں موروثی سیاست کی جڑیں کافی گہری ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب بہت سے ووٹرز، بالخصوص شہری علاقوں میں’ کی جانب سے اس نظام کے خلاف تنقید بڑھتی جا رہی ہے۔ایک بات یہاں کہ اہل دانش یا علمی و فکری حلقوں کو سمجھنی ہوگی کہ پاکستان کی ریاست، سیاست، جمہوریت اور معیشت سمیت قانون کا نظام زیادہ لمبے عرصہ تک روایتی طور طریقوں سے نہیں چلایا جاسکے گا۔ آج ہم 2024میں کھڑے ہیں جو نہ صرف گلوبل دنیا کی سیاست سے جڑا ہوا ہے بلکہ آج کا دور جہاں آزادی اظہار کو یقینی بناتا ہے وہیں ڈیجیٹل دنیا کے ابلاغ نے پردے کے پیچھے چھپے ہوئے سوالات کو داخلی و خارجی محاذ پر بے نقاب کردیا ہے۔ لوگ حساس موضوعات سمیت ان معاملات پر بھی سنجیدگی یا جذباتیت دونوں بنیادوں پر سوالات اٹھارہے ہیں جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہمیں سیاست سے زیادہ معیشت کو اپنی ترجیح بنانا چاہیے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ مضبوط سیاسی نظام یا سیاسی استحکام کے بغیر بھی معیشت مضبوط نہیں ہوسکے گی۔ سیاست دان بلاوجہ سیاسی نظام کی کمزوری کے لیے اپنے کندھے طاقتو رطبقوں کو پیش کرنے سے گریز کرے۔اگر ہمیں آگے بڑھنا ہے تو ماضی کی پالیسیوں یا سوچ سمیت طریقہ کار سے باہر نکلنا ہوگا۔اس وقت پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے ایک بڑے روڈ میپ کی ضرورت ہے جو صرف طاقتور طبقوں کے بجائے ملک کو نہ صرف ایک درست سمت دے سکے بلکہ ہم عملی اقدامات کی مدد سے بہتری کے نئے امکانات کو بھی پیدا کرسکیں۔
٭٭٭