شیخ حسینہ نے طلبہ کے قتل کا حکم دیا تھا!!!

0
16
حیدر علی
حیدر علی

یہ بھی ایک شومئی قسمت سے کم نہیں کہ ایک جانب بھارت اور دوسری جانب اُس کی نگرانی میں قید بنگلہ دیش کی سابقہ وزیراعظم یکے بعد دیگر متعدد جھٹکوں کی زد میں ہیں، پہلا جھٹکا تو اُنہیں اُس وقت لگا جب بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے تین رکنی بینچ نے اُن کی سزائے موت کا فیصلہ سنایا ، واضح رہے کہ یہ عدالت خود اُن کے دور میں اُن کی حکومت نے قائم کی تھی تاکہ جماعت اسلامی کے پاکستان کے حمایتی رہنماؤں کو تختہ دار پر چڑھایا جاسکے اور اُن سے اُن کے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے خون کا بدلہ لیا جاسکے لیکن اُنہیں یہ نہیں پتا تھا کہ یہی عدالت اُن کے گلے لگ جائیگی اور اُن کی موت کا پروانہ جاری کرے گی، شیخ حسینہ کی عدالت کی کارروائی جب جاری تھی تو وہ اور اُن کی کابینہ کے اراکین یکجا بیٹھ کراُس کی کاروائی کو سنا کرتے تھے، اور یہ تجزیہ کرتے تھے کہ ٹریبونل اُن کی دی ہوئی ہدایت پر کام کر رہا ہے یا نہیں، اُس دوران اُن کا بلند ہونے والا قہقہہ بھی قابل توجہ ہوتا تھا جیسے وہ انسان نہیں ڈائن
ہوں،جسٹس غلام مرتضی مجمدار کی سربراہی میں انٹرنیشنل ٹریبونل کورٹ کے کُل تین اراکین تھے۔دوسرے دو اراکین میں جسٹس شفیع العام محمود اور جسٹس محیط الحق انعام چوہدری شامل تھے تاہم اِسی عدالت نے درجنوں شیخ حسینہ کے مخالفین کو سزائے موت کا فیصلہ دیا تھااور یہ بھی ایک اہم تاریخی دستاویز ہے کہ اُن میں سے کسی نے بھی معافی کی درخواست نہیں کی تھی،فیصلہ میں کہا گیا کہ سابق اور مفرور وزیراعظم شیخ حسینہ نے علی الا علان فون کال کرکے گزشتہ سال کی طلبا تحریک کے دوران مظاہرہ کرنے والوں کے قتل کے احکامات دیئے، ملزمہ شیخ حسینہ نے طلبہ کے مطالبات سننے کے بجائے فسادات کو ہوا دی، اُنہوں نے طلبہ تحریک کو طاقت سے دبانے کیلئے تشدد، اغوا اور ماؤرائے عدالت قتل کی راہ کو اپنایا، عدالت نے انسپکٹر جنرل پولیس چوہدری عبداﷲ المامون کو بھی پانچ سال قید کی سزا سنائی، جب سزا سنائی جارہی تھی تو اُس وقت شیخ حسینہ دہلی کے ایک مچھلی بازار میں ہلسا مچھلی خرید رہی تھیں۔دوسری آفت جو سابق وزیراعظم شیخ حسینہ پر نازل ہوئی وہ اُن کے بینک میں لاکرز کی خانہ تلاشی لینے کی تھی، یہ نیک کام نیشنل بورڈ آف ریونیو کے سینٹرل سیل نے انجام دیئے۔ فوری وجہ اِس کی یہ تھی کہ بنگلہ دیشی حکام کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو جو تحائف غیرملکی سربراہوں اور کاروباری لوگوں سے ملا کرتے تھے موصوفہ اُسے اپنے باپ کی ملکیت سمجھ کر توشہ خانہ کے بجائے اپنے بینک کے لاکرز میں جمع کرادیتی تھیں،بنگلہ دیشی حکام یہ جانتے ہوے بھی خاموش رہے ، لیکن جیسے ہی اقتدار کا پردہ اُن کے سر سے سرکا وہ اُن پر حملہ آور ہوگئے، بدعنوان حکام نے یہی کرتوت کا مظاہرہ پاکستان میں بھی کیا تھا اور درجنوں وسیع الوسائل سے مرصع ہسپتالوں کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان پر بھی یہ الزامات لگائے تھے کہ اُنہوں نے توشہ خان میں غیر ملکی سربراہوں کے دیئے ہوے تحائف میں ادلا بدلی کی تھی۔نیشنل بورڈ آف ریونیونے شیخ حسینہ کے نام پر رجسٹرڈ دو لاکرز کو کھولے اور میڈیا کے نمائندوں کے سامنے اُس کے لوازمات کی نمائش کی، ایک لاکرز سے سونے کی بنی ہوئی ایک ہرن، کشتی اور سانپ
بر آمد ہوئے ، جبکہ دوسرے لاکرز سے حیدرآباد دکن کے تجربہ کار جوہریوں کے ہاتھوں سے بنے ہوئے زیوارات تھے، ایک اندازے کے مطابق لاکرز سے ملنے والی رقم جس میں ڈالرز، برطانوی پونڈز ، بھارتی روپے اور سعودی ریال شامل تھے کی کُل لاگت پچاس لاکھ ڈالر کے قریب تھی، جبکہ صرف سونے کی مالیت دس لاکھ ڈالرز تھی،تاہم لاکرز کا معمہ بھی متنازع بن گیا ہے. شیخ حسینہ کے وکیلوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ لاکرز صرف شیخ حسینہ کے نام نہیں تھے، بلکہ یہ اُن کی بہن ریحانہ ، بیٹا جوائے ، نواسی پُتل کی مشترکہ ملکیت تھی لہٰذا صرف شیخ حسینہ کو مورد الزام نہیں ٹہرایا جاسکتا ہے، مزید برآں غیر ملکی سربراہوں کے دیئے ہوے تحائف جسے بنیاد بناکر لاکرز کو کھولا گیا تھا ،اُس کا کچھ پتا نہ چل سکا، کہیں ایسا تو نہ ہوا کہ کسی تیسرے فریق یا بینک کے حکام نے درمیان میں گھپلا کر دیا ہو۔شیخ حسینہ کی دولت کو لوٹنے کیلئے بنگلہ دیش میں کئی فریق متحرک ہیں ، اُن میں فوج اور بیوروکریٹس پیش پیش ہیں بلکہ فوج نے تو یہ پیشکش کی ہوئی ہے کہ جس نے بھی شیخ حسینہ کی جائداد یا خفیہ دولت یا بینک لاکرز کے بارے میں کوئی بھی اطلاع فراہم کرے گا تو اُسے اُس رقم کا دس فیصد بطور کمیشن ادا کیا جائیگابعض بااثر دیہاتیوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ شیخ حسینہ نے اپنے خزانے کو اپنے گاؤں کے زیر زمین دفنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کے گاؤں کے قرب و جوار کے علاقوں میں فوجی افسران زمین کھودتے ہوئے نظر آتے ہیں اور استفسار کرنے پر اُنکا یہ جواب ہوتا ہے کہ وہ اسلحہ تلاش کر رہے ہیں،شیخ حسینہ کے حمایتی اور رشتہ دار جو بھاگ کر کلکتہ چلے گئے ہیں ، اُنہیں دلاسا دے رہے ہیں کہ وہ اُنہیں وہ ساری رقم واپس دلوادینگے جسے موجودہ حکومت نے اپنے تحویل میں لے لیا ہے تاہم شیخ حسینہ کا یہ موقف ہے کہ وہ ساری رقم اُنہیں فوری طور پر چندہ کرکے ادا کی جائے ورنہ وہ سیاست کو خیرباد کہہ سکتی ہیں، اُن کے حمایتی اور رشتہ دار جانتے ہیں کہ اگر شیخ حسینہ ہاتھ سے نکل گئیں تو اُن کی سیاست بھی پھلجھڑی بن کر ہوا میں اُڑ جائیگی اور نہ ہی وہ پارٹی کا الیکشن جیت سکیں گے اور نہ ہی قومی اسمبلی کا۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here