نورِ مصطفی !!!
چنانچہ زرقانی جلد٥ صفحہ ١١٦ میں درج ہے کہ جوں ہی بدھ کا دن آیا کفارِ مکہ بڑی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کر بیرون شہر اپنے قافلے کی آمد کا شدت سے انتظار کرنے لگے۔ وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا حتیٰ کہ آفتاب عالم تاب شفق کی گود میں روپوش ہونے لگا یعنی بدھ کا دن ختم ہوا چاہتا تھا اور وقت شام جلوہ بار ہونے کے لئے اپنے پرتول رہا تھا۔ رسولِ مکرمۖ کے فرمان عالی شان کے مطابق بدھ کے دن قافلے کو لوٹنا تھا مگر دور دور تک قافلے کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ کفارِ مکہ خوشیوں میں اُچھل کود کر رہے تھے کہ معاذ اللہ محمد بن عبداللہ (ۖ) کا کہنا غلط ہوگیا اور ان کا دعویٰ سفر بیت المقدس بے دلیل ہو کر رہ گیا۔ کفارِ مکہ بالکلیہ اس امر سے نابلد تھے کہ جو بات اللہ کے محبوب دانائے غیوب ۖ کی زبان اقدس سے نکل جاتی ہے۔ وہ پتھر کی لکیر ہوتی ہے۔ ثانیاً یہ کہ بھلا خدا کو کیسے گوارا ہو کہ اس کے محبوب کی زبان فیض ترجمان سے صادر ہوا کوئی قول غلط ہو جائے اور کفارِ مکہ اس کی تکذیب میں کامیاب ہوجائیں۔ حضرت یونس بن بکیر حضرت ابن اسحاق سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب حضور پر نور ۖ کو غروبِ آفتاب کی بات معلوم ہوئی تو آپ نے فوراً بار گاہِ خدائے لم یزل میں حبس الشّْْمس یعنی سورج کو ٹھہرا دینے کی دعا کی۔ نتیجتاً خالق کائنات نے اپنے حبیب مکرم ۖ کی دعائے لطیف کو مستجاب فرماتے ہوئے آفتاب کو غروب ہونے سے روک کر ایک گھڑی دن میں اضافہ فرما دیا۔ یعنی اس وقت تک سورج افق میں ٹھہرا رہا جب تک کہ کفارِ مکہ کا قافلہ صحیح سلامت واپس نہ آگیا۔ یاد رہے کہ مذکورہ حبس الشّمس والا معجزہ سرور کائنات ۖ کے لئے خاص نہیں ہے۔ تفسیر جلالین میں سورہ مائدہ کی تفسیر کے ضمن میں مرقوم ہے کہ آپ کی بعثت کے صدیوں پہلے حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے خلیفہ اجل حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے ذریعہ اس معجزے کا ظہور اس وقت ہوا جب آپ بیت المقدس میں قوم جبّارین کے ساتھ مصروف جہاد تھے۔ اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ جمعہ کا دن تھا۔ قوم جبارین کے ساتھ گھمسان کی جنگ جاری تھی۔ ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی تھی کہ آفتاب غروب ہونے لگا۔ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام نے سوچا کہ اگر آفتاب غروب ہوگیا تو ہفتے کا دن شروع ہوجائے گا اور شریعت موسوی میں ہفتہ کے دن جنگ کی ممانعت ہے تو اسی بنیاد پر آپ نے خداوندقدوس کی بارگاہ میں جس شمس کی دعا فرمائی اور آپ کی دعا اس طرح قبول ہوئی کہ سورج اس وقت تک ٹھہرا رہا جب تک کہ فتح وکامرانی آپ کے قدم ناز سے سرفراز نہ ہوگئی۔
٭٭٭













