فلسفۂ شہادتِ امِام حسین

0
161
Dr-sakhawat-hussain-sindralvi
ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

نواسہ رسول ، جگر گوشہ علی وبتول ، سید الشہداء ، سرور کاروان حریت ، مصداق ذبح عظیم اور محافظ قرآن واسلام حضرت امام حسین علیہ السلام نے پیغمبر اسلام کی سرپرستی میں آغوش فاطمہ میں پرورش پائی۔ آپ بچپن ہی سے فضائل وکمالات کے مرکز شمار ہوتے تھے۔ سرور کائنات ۖ نے خود آپ کا نام رکھا۔ مدینے کی گلیوں میں اپنے کندھوں پر بٹھایا۔ رضوان بہشت سے لباس و خوراک منگوائی ، حالت سجدہ میں پشت پر سوار ہونے کے باعث آنحضور ۖنے سجدے کو طول دیا۔ 4ہجری میں پیدا ہونے والے شہزادے نے 61 ہجری کو میدان کربلا میں اپنا تن من دھن قربان کرکے اسلام کو حیات جاویدانی بخش دی۔ بعض عاقبت نا اندیش مؤرخ اور کج فکر مفکر واقعہ کربلا کو شخصیتوں کی جنگ اور خاندانوں کے معرکے سے تعبیر کرتے ہیں۔حالانکہ یہ دو کرداروں کا معرکہ تھا آ پ نے روضہ رسول ۖ پر حاضری سے کربلا کے سفر کا آغاز کیا اور محمدابن حنفیہ کے نام لکھے گئے وصیت نامے میں تحریر فرمایا !” نہ میں سرکشی اور جنگ وجدال کا ارادہ رکھتا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا ہے نہ کسی پر ظلم کرنا میں تو نانا کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا ہوں میری غرض امر بالمعروف نہی عن المنکر اور اپنے جد اور بابا کی سیرت کی پیروی ہے ” آپ کا یہ جملہ فلسفہ شہادت عظمیٰ کی عکاسی کرتا ہے کہ خدا یا مجھے نیکی سے محبت اور برائی سے نفرت ہے۔ آپ نے گوشہ نشینی کی بجائے جہاد کو ترجیح دی آپ نے لشکر کشی نہیں کی ورنہ اپنے ساتھ عورتوں اور بچوں کو لے کر نہ جاتے۔ آپ نے اپنی ذات کی بجائے اسلام کو زندہ رکھا۔ جس سے اسلام کے ساتھ ساتھ آپ بھی زندہ جاوید ہوگئے۔ اگر کوئی کہے کہ امام حسین اور شہدائے کربلا نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالا تو زمانہ رسول ۖ کے تمام غزوے اور سریے مورد اعتراض واقع ہوں گے۔
قرآن وحدیث میں جہاد کا حکم ہے اور جہاد صرف شخصیتوں ہی کا نہیں بلکہ کردار سے بیزاری کے اعلان کا نام ہے۔ یزید نے خود ساختہ خلافت کی زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی مذہب فطرت کے الٰہی آئین کو ایسا پامال کیا کہ ارواح انبیاء علیہم السلام بھی لرز گئیں۔ وہ خود شراب کے نشہ میں مست رہتا لوگوں کو اس کی رغبت دلاتا تھا۔
بیت الما ل کو اپنی عیاشی اور اپنے اقرباء کی عیش وعشرت کیلئے استعمال کرتا تھا۔ اس کے دربار کی زینت گویا عورتیں تھیں۔ مسجد نبوی کو اصطبل بنانا خانہ کعبہ کو منجنیقوں سے چوٹنا اس کے بھیانک جرائم میں شامل تھا۔ وہ شطرنج کو اسلامی کھیل کے طور پر متعارف کرارہا تھا۔وہ اپنے دربار میں بندر کو عالم دین کا لباس پہنا کر نچاتا اور لوگوں کے سامنے تذلیل علماء کا سامان کرتا۔ اقتدار کے نشے میں مست یزید کیلئے حلال وحرام کی تمیز ختم ہوگئی تھی۔امام مظلومنے اسلام کی نصرت میں یزید کی بدکرداریوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے کو منتخب کیا۔ نشہ ریاست میں سرمست یزید بوسہ گاہ رسولۖ میں بیعت کی زنجیر ڈالنے کے درپے تھا۔ آپ نے ثابت کردیا کہ یہ گردن کٹ تو سکتی ہے جھک نہیں سکتی یزیدنے اس ہاتھ سے بیعت مانگی جس کے پیچھے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی محبت پنہاں تھی۔
میدان منیٰ میں ایثار ابراہیمی کا عملی نمونہ وادی نینوا میں پیش کر کے ذبح عظیم کی تفسیر فراہم کی اگر امام عالی مقام یہ قربانی نہ دیتے تو انبیاء کی محنت اکارت جاتی۔ آپ کے سر کے کوفہ وشام میں قرآن پڑھنے سے حدیث تقلین کا عملی نمونہ منظر عام پر آیا۔قاتلان حسین نے سر مظلوم کو نوکِ نیزہ پر بلند کر کے اپنی شکست کا کھلا اعلان کردیا۔
بقول استاد قمرجلالوی
جھکانا چاہاتھا جس سر کو شام والوں نے
شکست دیکھئے اسی سر کو خود اٹھا کے چلے
آپ کے ایثار واحتجاج کے بعد ہر تخت نشین کیلئے کردار کی تصدیق مشکل ہوگئی اور یہ آشکار ہوگیا کہ لبادہ اسلام اوڑھ کر تخت پر بیٹھنے والا ہر شخص خلیفہ رسول نہیں ہوتا۔ بلکہ کبھی اس لباس میں یزیدبھی نمودا ر ہوسکتا ہے حاکم اسلامی کیلئے خاندانی حسب و نصب کردار کی شرط قرارپاگئی۔ امام حسین نے جوارِ روضہ رسول میں یہ جملہ کہہ کر” مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ”حق وباطل کا معیار قائم کردیا۔ اگر شخصیتوں کا اختلاف ہوتا تو آپ” مجھ جیسا” نہ فرماتے۔
آپ نے 28 رجب 60 ہجری میں اپنے نانا کے شہر کو ہمیشہ کیلئے ترک کیا۔ ٣ شعبان شب جمعہ کو 60ھ وارد حرم الٰہی ہوئے۔ آپ نے چار ماہ اور پانچ دن جوار خانہ کعبہ میں عبادت کے عالم میں گزارے۔ کوفہ کے مصلحت پسندوں نے امام عالی مقامکو متعدد خطوط بھیجے کہ وہ کوفہ تشریف لائیں۔ آپ نے اپنے چچا زاد بھائی اور بہنوئی حضرت مسلم بن عقیل کو با اعتماد سفیر بنا کر کوفہ بھیجا تاکہ وہ وہاں کے حالات سے خبر دیں۔جنہیں کوفہ میں بے دردی سے قتل کردیا گیااور ان کے بچوں کو پابند سلاسل کر دیا گیا جو بعد ازاں شہید کر دئیے گئے۔
٨ ذی الحج کو آپ مکہ سے عازم کربلا ہوئے۔ آپکے ساتھ بوڑھے جوان بچے اور عورتیں بھی تھیں۔ آپ کومدینہ سے عبداللہ بن عباس۔ محمد بن حنفیہ اور حرم رسول حضرت ام سلمہ نے روکا تھا۔ جبکہ امام نے یہ کہہ کر رخت سفر باندھا کہ اسلام کیلئے ہر قربانی دوں گا۔مکہ سے نکلتے ہی آپ کے چچا زاد بھائی عبداللہبن جعفر طیار کا خط ملا جس میں عراق نہ جانے کا مشورہ تھا جسے آپ نے قبول نہ فرمایا امام حسین کے اطمینان میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی۔
منزل حاجر سے آپ نے کوفے والوں کو خط تحریر فرمایا جس میں انہیں ان کا وعدہ یاددلایا گیا۔قصر بنی مقاتل پر عبداللہابن حر جحفی ملے۔ جبکہ منزل اشراف پر آپ نے محرم کا چاند دیکھا اور یہیں پر لشکر حر سے ملاقات ہوئی اور حر سمیت لشکریوں نے امام کے پیچھے نماز ادا کی آپ نے حکم دیا کہ لشکر حر کو پانی پلایا جائے باقی ماندہ پانی ان کے گھوڑوں کو پلایا گیا۔حر نے امام سے کہا کہ ہمیں حکم ہے کہ آپکو زندہ قید کر کے کوفہ لے جائیں۔ آپ نے اپنے جواب میں دنیا بھر کے انقلابی اذہان کو ایک خط فکر دیا اور فرمایا کہ میرے لئے یہ ممکن نہیں کہ میں کوفہ میں خاموشی سے قتل کردیا جاؤں۔امام مظلوم نے حر کے جواب میں یہ بھی فرمایا تھا میں راستہ دکھانے والا ہوں راستہ بدلنے والا نہیں ہوں۔اس ایک جملے نے حر کے ایمان پر پڑی ہوئی گرد جھاڑ دی۔
٢ محرم آپ وارد کربلا ہوئے اور 60ہزار درہم کے بدلے میں4مربع میل اراضی کو اہل غاضریہ کے بنی اسد قبیلے سے خریدفرمایا۔ کربلا کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی آپ نے حقوق بشر کا پہلا زریں اصول رقم کردیا۔ ورنہ حکومتی معاملات اور ہنگامی حالات میں خرید وفروخت کی باریکیوں کا خیال کون رکھتا ہے علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں لکھا ہے کہ اسی سرزمین سے حضرت آدم ،حضرت نوح ، حضرت ابراہیم حضرت اسماعیل حضرت موسیٰحضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ جیسے انبیاء کا بھی گزر ہوا جنہیں مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا۔ سات محرم 61ھ کو سادات بنی ہاشم کیلئے فوج اشقیاء نے پانی بند کردیا۔
عاشورہ کی شب امام حسین نے اعداء کو ایک رات کی مہلت دی۔ امام عالی مقام علیہ السلام آخری وقت تک جنگ سے کنارہ کشی فرماتے رہے مگر جب فوج اشقیاء نے ہدایت قبول کرنے سے صراحاً انکار کر دیا تو پھر اپنا سب کچھ لٹانے کے لئے امام اپنے اہل بیت وانصارکو لیکر میدان میں وارد ہوئے۔ حبیب ابن مظاہر۔ مسلم بن عوسجہ۔ عابس شاکری۔ بریر ہمدانی۔ نافع ابن ہلال۔ حر ریاحی۔وہب کلبی۔زہیر قین۔سعید۔اسلم ترکی ،بَجَلی اور جون جیسے اصحاب اورپھر حضرت عباس ۔ علی اکبر ۔حضرات عونومحمد۔ قاسم۔ عبداللہ۔جعفر۔ عثمان اولاد عقیل جیسے قرابتداروں نے میدان جنگ میں وہ جوہر دکھائے کہ جس کی نظیر ناممکن ہے۔ آخر چھ ماہ کے علی اصغر کو بھی قربان کرکے خود سر کو سجدے میں رکھ دیا۔ ابن صفی نے خوب نقشہ کھینچا۔
تہہ شمشیر سجدہ اور ایسا معتبر سجدہ
بتااے بے نیاز اب اعتبار بندگی آیا
آپ نے فرمایا تھا ”اگر دین محمدی کی بقا ء میرے قتل کے سوا ممکن نہیں تو تلوارو آئو مجھ پر ٹوٹ پڑو ” آپ کی قربانی سے ہر دور کے مظلوموں اور محروموں کو وقت کے جابر وظالم سے ٹکرانے کا درس بھی ملا اور ضرورت پڑنے پر اسلام کیلئے سب کچھ قربان کرنے کی تلقین بھی ہوئی۔ حضرت امام علی کے سجدے کی تکمیل آپ نے کی۔ جب کہ خطبے کی تکمیل آپکی ہمشیرہ جناب زینب نے کوفہ وشام کے بازاروں اور درباروں میں کی۔ شاعر نے خوب کہا۔
ایک سجدہ علیکا باقی تھا
ختم کردی حسیننے وہ نماز
ایثارشبیری سے اسلام ہمیشہ کیلئے بقا پاگیا اور فرعون وہامان قارون نمرود شداد یزیدجیسی قوتیں ہمیشہ کیلئے شکست کھا گئیں۔
پیدا ہر ایک دور میں ہوتے رہے یزید
لیکن کسی حسینکی گردن میں خم نہیں
امامکے صاحبزادے حضرت امام زین العابدین نے بیماری کے باوجود خطبے دے کر کوفہ وشام کے لوگوں کو یزید کے خلاف عملی جہاد تک آمادہ کرلیا۔ جب یزیدنے دربار میں سید سجاد سے پوچھا شہزادے اس جنگ میں کون جیتا تو آپنے فرمایا کہ جس کے نانا کا نام قیامت تک اذان میں شامل رہے گا۔
جب یزید نے تفاخر کرنا چاہا اور اہل بیت کی توہین کرنے کیلئے زبان دراز ی کی تو سیدہ زینب نے اس جملے سے اس کا دندان شکن جواب دیا ” یزید اگر آج رسول ۖ زندہ ہوکر آجائیں تو بتا وہ تیرا ساتھ دیں گے یا ہمارا ساتھ دیں گے؟ ” دربار میں موجود عیسائیوں نے یزید کو شرمندہ کردیا۔ پیغمبر اکرمۖ نے ارشاد فرمایا کہ حسناور حسین جوانانِ بہشت کے سردار ہیں۔نیزفرمایا حسین ہدایت کا چراغ اور نجات کا سفینہ ہیں۔ حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ حسین کا دو ست میرا دوست اور حسینکا دشمن میرا دشمن ہے۔
صحابہ کراماور تابعین سب امام حسین سے محبت رکھتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ جب امام حسین کو دیکھتے تو ان کی آنکھوں سے آنسو آجاتے۔ شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن عمر گھوڑا دوڑاتے اور بھوکے پیاسے شام تک گئے تھے اور انہوں نے یزید سے کہا تھا کہ جو ظلم تم نے کیا یہ تو رومی ترکی بھی نہ کرتے ۔ مگر یزید نے انہیں ایک خط کے بہانے خاموش کرادیا۔
شاعر مشرق نے فرمایا !
غریب وسادہ ورنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسماعیل
اﷲ اﷲہائے بسم ا پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
بحر حق درخاک وخون غلطیدہ است
پس بنائے لا الٰہ گردیدہ است
نقشِ الا اﷲ بر صحرا نوشت
سطرعنوان نجات ما نوشت
موسیٰ و فرعون و شبیر ویزید
ایں قوت از حیات آمدیدید
مدعائش سلطنت پودے اگر
خود نکردے باچنین سامان سفر
رمز قرآن از حسین آموختیم
ز آتش اوشعلہ ہا اندوختیم
ریگ عراق منتظر کشت حجاز تشہ کام
خون حسین بازدہ کوفہ وشام خویش را
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دل گیری
نماز عشق حسین حجاز ہے گویا
یہی نماز خدا کی نماز ہے گویا
جس طرح مجھ کو شہید کربلا سے پیار ہے
حق تعالیٰ کو یتیموں کی دعا سے پیار ہے
رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں میں
کیا در مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے
خدا سب مسلمانوں کو امام حسین علیہ السلام اوران کے باوفا اصحاب کے راستے پر چلنے کی توفیق دے اور کردارِ حسینی سے محبت اور کرداریزیدی سے نفرت کا جذبہ عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here