پاکستان ایک شرارتی بچہ اور ناراض امریکی

0
395
وسی بابا
وسی بابا

افغانستان میں ایک کے بعد دوسرا صوبہ طالبان کے قابو آتا گیا اور عالمی میڈیا اس رفتار کے لیے ‘لائٹننگ’ کا لفظ استعمال کر رہا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ سب میڈیا والے ایک دوسرے کو نقل کروا رہے ہیں۔ وہ بھلے لائیٹ کی اسپیڈ بتا بتا کر نقل کراتے رہیں، ہم تو بھئی اپنے لیڈر کپتان کا ‘اسپیڈ کی لائٹ والا’ ڈائیلاگ ہی استعمال کریں گے، اس سے ریس زیادہ ہونے کا مطلوبہ تاثر بنتا ہے۔ دنیا ابھی حیران ہو رہی ہے اور طالبان ہرات اور قندھار کے بعد کابل بھی لے چکے، اور شاید ایسا ہونا یقینی بھی تھا کیونکہ افغانستان کی ایک کہاوت ہے کہ جس کا قندھار اس کا کابل۔ پاکستان میں یہ کہاوت شاید کم لوگوں نے سنی ہو۔ امریکیوں نے اپنے 3 ہزار فوجی دوبارہ کابل بھجوا دئیے ہیں۔ فوجیوں میں نیوی سیل بھی ہیں اور آرمی کے فْٹ سولجر بھی۔ یہ کابل سے امریکی سفارتخانے سے اسٹاف کا انخلا کروانے گئے ہیں۔ بندہ پوچھے کہ ایسی بھی کیا ضرورت آن پڑی؟ تو اس ضرورت کا جواب ہے کہ جب طالبان کابل آ رہے ہوں تو امریکی یہ سب دیکھنے کو وہاں موجود نہ ہوں۔ 20 سال پرانی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ امریکی آ رہے تھے تو طالبان ایسے ہی جا رہے تھے۔ ملا عمر نے بھی موٹر سائیکل کو کِک لگائی تھی اور قندھار سے نکل گئے تھے، لیکن چونکہ اب زمانہ بدل گیا ہے اس لیے اشرف غنی نے سائیکل کے بجائے جہاز کا انتخاب کیا۔ افغان سیکیورٹی فورسز جس مذہبی جوش و خروش اور عقیدت و احترام کے ساتھ ہتھیار ڈال کر فوری طور پر دسترخوان پر بیٹھی دکھائی دے جاتی ہیں، یہ راز اگر کسی کو جاننا ہو تو سگار کی ویب سائٹ کو پھرولے۔ 2016ء میں رائٹرز نے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن (سگار) کے حوالے سے خبر دی تھی کہ افغان سیکیورٹی فورسز کی تعداد 3 لاکھ 20 ہزار بتائی جاتی ہے۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں بھوت (گھوسٹ) سپاہی ہیں جن کا صرف کاغذوں میں اندراج ہے مگر ان کی تنخواہیں کھائی جاتی ہیں۔ اب وہ بھوت تب ہی لڑنے آتے اگر طالبان ان کو چڑیلیں لگتے۔ طالبان نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کی ہے۔ بہتر میڈیا اسٹریٹجی اپنائی ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں میڈیا ٹیم ساتھ ہوتی ہے۔ افغان فورسز جب ہتھیار ڈالتی ہے تو اس کو فلمبند کیا جاتا ہے اور پھر ویڈیوز ریلیز ہوتی ہیں کہ طالبان سرنڈر کرنے والوں کو کھانا کھلا رہے ہیں اور خرچہ دے رہے ہیں۔ ہرات کے گورنر اسماعیل خان کو سرنڈر کے بعد ان کے گھر جانے دیا گیا۔ شیڈو گورنر کی گاڑی میں انہیں سفر کروایا گیا اور ان کے احترام کا خیال بھی رکھا گیا۔ طالبان نے وزارتِ اطلاعات و فرہنگ قائم کی ہے۔ خواتین کو کہا گیا ہے کہ آپ اپنی ملازمت جاری رکھیں۔ موسیقی کی ممانعت نہیں کی گئی۔ محرم میں جلوس نکالنے والوں کو صرف اجازت ہی نہیں دی گئی بلکہ ان کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا بھی کہا گیا ہے۔ طالبان اب جب اپنا کوئی اعلامیہ جاری کرتے ہیں تو وہ صرف پشتو میں نہیں ہوتا بلکہ لازمی طور پر دری زبان میں بھی جاری کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ وہ نہ صرف اپنے متعلق خدشات کا جواب دے رہے ہیں، ساتھ ہی اپنی بیس بھی وسیع کر رہے ہیں۔ قندھار قبضہ کرنے کے بعد احمد شاہ ابدالی کے مزار پر حاضری اور اس موقع پر پوسٹ کی گئی نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ افغان مائنڈ سیٹ کو کیسے ایڈریس کیا جا رہا ہے۔ اک مشترکہ فخر کا احساس بڑھایا گیا کہ’بابا اب تم امن سے آرام کرو، میں آگیا تمہارے دشمنوں کی ہڈیاں توڑ کر، مجھے دیر لگی آنے میں پھر ایسا نہیں ہوگا۔’
افغان مائنڈ سیٹ کو سب سے زیادہ برطانیہ بہادر سمجھتا ہے، لیکن وہ پرانا قبائلی مزاج تھا جسے طالبان ترک کرچکے۔ برطانوی فوج ہلمند میں تعینات رہی۔ 20 سال میں 457 برطانوی فوجی ہلمند میں مارے گئے۔ ہلمند میں بلوچ بھی آباد ہیں۔ ہلمند کا دارالحکومت لشکر گاہ طالبان کے ہاتھ لگنے پر برطانیہ والے اپ سیٹ ہیں۔برطانوی وزیرِاعظم بورس جانسن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ برطانیہ کے سیکریٹری دفاع بین ویلیس نے ایک انٹرویو میں کھل کر کہا ہے کہ ‘برطانیہ امریکی انخلا کے فیصلے سے متفق نہیں تھا۔ ہم نے کوشش کی کہ امریکا کے علاوہ نیٹو اتحادی اگر چاہیں تو ہم افغانستان میں رکنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن فرانس اور جرمنی نے ہماری حمایت نہیں کی جبکہ ہم اکیلے ایسا کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ایسا کرتے تو افغان ہمارے مزید قیام کو 1870ء کی برٹش افغان جنگ کی ایکسٹینشن سمجھ لیتے اور ایک بْرا تاثر جاتا’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ناکام ریاستیں دہشت گردی کی نرسری بن جاتی ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ افغانستان میں ایسا ہوسکتا ہے۔ القاعدہ واپس آسکتی ہے اور برطانیہ کے لیے خطرات میں اضافہ ہوسکتا ہے’۔ خطروں سے یاد آیا کہ برطانیہ بہادر ہلمند میں بیٹھا افغان طالبان سے لڑ رہا تھا۔ برطانیہ کے سبز قدم ایسے پڑے کہ پاکستان ہلمند کے ہمسائے بلوچستان میں مصروف ہوگیا۔ بلوچ عسکریت پسندی کی ایک لہر اْٹھی اور ہم ہیں کہ اب تک اس کو سنبھالنے کی بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔جنرل سر نک کارٹر برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف ہیں۔ یہ افغانستان میں نیٹو اتحاد کے ڈپٹی کمانڈر رہے ہیں۔ یہ تب کمانڈر تھے جب اتحادی افواج افغان فورسز کو پاور ٹرانسفر کر رہی تھیں۔افغانستان کی طرف سے اس ٹرانسفر کے انچارج وزیر اشرف غنی تھے۔ ان دنوں نک کارٹر نے کئی ہفتے اکٹھے افغانستان کا دورہ کیا۔ دونوں میں قریبی تعلقات قائم ہوگئے۔ یہی نک کارٹر پرائیویٹ جیٹ میں اہم پاکستانی فوجی افسروں کی افغان لیڈران سے بحرین، دوحہ اور کابل میں ملاقاتیں کرواتے رہے۔ اشرف غنی اور جنرل باجوہ کی ملاقات میں بھی یہ موجود تھے۔
گارجیئن کا کہنا ہے کہ نک کارٹر چاہ رہے تھے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثر استعمال کرے۔ پھر ایک دن پاکستان نے اچانک کہنا شروع کردیا کہ ہمارا طالبان پر کوئی اثر نہیں۔ برطانیہ بہادر افغانستان کے بارے میں کیا کہہ رہا ہے وہ آپ نے اوپر پڑھ لیا۔ فنانشل ٹائمز کا کہنا ہے کہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی سے لگتا ہے کہ وہ 11 ستمبر کی برسی آنے تک کابل ہی نہ لے لیں۔ اگر ٹرمپ اس وقت امریکا کا صدر ہوتا تو ہاہاکار مچی ہوتی۔ یہ ڈیموکریٹ اور بائیڈن سرکار کی سنجیدگی ہے کہ اتنا شور نہیں مچ رہا۔ سی آئی اے اور صدر بائیڈن کے اندازوں سے کہیں پہلے طالبان قبضے کر رہے ہیں۔ افغانستان بائیڈن کے نعرے ‘امریکا اِز بیک’ کے لیے ایک ڈیزاسٹر ثابت ہو رہا ہے۔ اْلٹا چین اور روس کا یہ کہنا ٹھیک لگ رہا ہے کہ امریکا کی طاقت کم ہو رہی ہے۔ امریکا کی دفاعی ضمانتوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
امریکی اور یورپی میڈیا اس کْھلی ناکامی پر سوال اٹھا رہا ہے۔ پینٹاگون کو وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں کہ وہ 20 سال افغانستان میں کیا کرتے رہے جو 2 مہینوں میں ہی سب کچھ دھڑام ہوگیا۔ پینٹاگون اب پاکستان میں ‘سیف ہیون’ (محفوظ ٹھکانوں) کا بتا کر ناکامی کا ملبہ ہم پر ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ہمارے بھارت مہان کا معتبر اخبار دی ہندو افغانستان میں انڈین پالیسی کے رل جانے کا اعتراف کر رہا ہے۔ دل آرام زرنج روڈ اور سلمیٰ ڈیم پر طالبان پہلے ہی قبضہ کرچکے ہیں۔ یہ دونوں پراجیکٹ بھارتی حکومت نے بہت جی جان سے ڈالر خرچ کرکے بنائے تھے۔ طالبان کے قبضے کی تو چلو خیر ہے لیکن یہ اتنے پیارے زنانہ نام ہاتھ سے جانے پر سینے پر سانپ لوٹنے والی فیلنگ ضرور آتی ہوگی۔بھارت اب طالبان کے ساتھ تعلق بڑھائے، افغان حکومت کی سپورٹ کرے، انتظار کرے یا پھر اخلاقی پوزیشن لے لے کہ میں تو جمہوریت پر ہی مروں گا اور اسی افغان حکومت کی حمایت کروں گا جو جمہوری ہوگی۔ یہ کہہ کر لاتعلق ہوجائے اور دل آرام کو بھول جائے۔
ہمارے دوست ملک چین کے وزیرِ خارجہ نے طالبان کے ساتھ چین میں ہی ایک ملاقات کی۔ بظاہر تو اس سے لگا کہ چین کے لیے امکانات کا ایک در کھل رہا ہے۔ ترک ویب سائیٹ ٹی آر ٹی کا کہنا ہے کہ چین کو افغانستان میں اتنا فائدہ نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے بلکہ اْلٹا افغانستان اس کے لیے ایک بوجھ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے دروازے پر عدم استحکام کا شکار ملک چین کے لیے ہرگز کوئی اچھی خبر نہیں ہوگی۔ طالبان کابل کے دروازے پر پہنچ گئے۔ تب بھی مذاکرات ہی کو آپشن بناکر پْرامن انتقالِ اقتدار کے لیے بات کرنے کا آپشن لیا۔ دنیا کے لیے یہ سب غیر متوقع ہے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے تمام تر دباؤ کا خاتمہ کرتا ایک بیان جاری کیا کہ 4 امریکی صدور افغان جنگ میں مصروف رہے۔ میں یہ بوجھ پانچویں صدر پر منتقل کرکے نہیں جاؤں گا۔امریکی صدر کو اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں اور یہ وہ کہہ بھی رہے ہیں۔ لیکن ہاں، امریکی میڈیا، سیاستدانوں اور پینٹاگان کے دباؤ میں آکر شاید بائیڈن پاکستان کے حوالے سے مزید سخت رویہ اختیار کرسکتے ہیں۔ افغانستان میں ہونیوالے معاملات کا دباؤاب کسی پر تو ڈالنا ہے۔ ایسے کاموں کے لیے بکرا ہم نہیں تو کون؟ اور ہم سے اچھا کون؟
قومی اسمبلی کی سلامتی کمیٹی کو میٹنگ میں بھی بتایا جاچکا ہے کہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار پاکستان میں شدت پسندی کی ایک نئی لہر پیدا کرسکتا ہے۔آج کل پنڈی آبپارہ صحافیوں پر مہربان ہے۔ جلدی جلدی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ بریفنگ دی جا رہی ہے۔ اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ نارمل حالات میں ایسا ہوتا نہیں ہے، نہ ہی صحافیوں کو اتنا لفٹ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے نہ ایسا سمجھا جاتا ہے۔ اپنی پوری مدت میں اک آدھ ملاقات بھی صحافیوں کے لیے کافی اور شافی ہوتی ہے لیکن اب ان ملاقاتوں سے اپنے صحافیوں کو سیدھی راہ پر رکھنا مقصود ہے۔ اس موقعے پر اگر مقامی میڈیا نے بھی عالمی میڈیا کی لائن پکڑ لی تو مشکلات کو ضرب دے بیٹھے گا۔ غیر ملکی میڈیا تو ہماری سنتا نہیں اس لیے ہمارا اپنا میڈیا ہی کوئی خیال کرے۔ وہ بھی ایسے میں جب باہر سے اتنا دباؤ آ رہا ہے۔ اس دباؤ کا جواب بس اتنا ہے کہ پاکستان ایک شرارتی بچہ ہے۔ جس کو عالمی طاقتوں سے ڈیل کرنے اور انہیں خوار کرنے کا 70 سال کا تجربہ بھی ہے۔ تو ہمارے ساتھ بنا کر رکھنا سب کی مجبوری بھی ہے، ورنہ شرارتی تو ہم ہیں ہی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here