غزہ کی پٹی پر ناجائز محاصرہ اور جزوی پابندیاں تو نوے کی دہائی میں ہی شروع ہو گئی تھیں لیکن مکمل جابرانہ ناکہ بندی کا نفاذ بعد میں ہوا۔ فلسطین پر ظلم و جبر کی یہ داستان دراصل پہلی جنگِ عظیم کے بعد، خلافتِ عثمانیہ کے سقوط سے شروع ہوئی تھی۔ مغربی قوتوں کے صیہونی عناصر نے صدیوں سے امن و امان کی فضا میں بسنے والے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کا ایسابے رحمانہ طریقہ اپنایا کہ میں النب کا پرتشدد تباہی پر مشتمل سانحہ عظیم برپا ہوگیا۔ انسانی تاریخ کے اس ناقابلِ یقین واقعے نے فلسطینی سوسائٹی کے پرخچے اڑا دیئے۔ مجبور و مقہور لوگوں کی زمینیں، گھر، مال و متاع کے ساتھ ساتھ لاکھوں جانیں بھی مغرب کے حرص و طمع کے بھینٹ چڑھ گئیں۔ ظلم و جبر کے اس پرتشدد سانحے سے اہلِ مغرب کو اسرائیل جیسی ناجائز اولاد ملی۔ اسی ناجائز اولاد کی وجہ سے پوری دنیا تقریبا ایک صدی سے بدامنی اور جنگ و جدل کا شکار ہے۔ اس زمانے میں بھی اقبال کاتجزیہ بہت خوب تھا۔
رندان فرانسیس کا میخانہ سلامت
پر ہے مئے گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا
ہے خاک فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
مقصد ہے ملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رطب کا
مولانا ظفر علی خان کی رائے بھی کچھ یہی تھی کہ
لندن کے کمیشن کی سفارش سے پریشان
سب شیخِ فلسطین ہیں سب شابِ فلسطین
زینت جسے دی سرخیِ خونِ شہدا نے
اسلام کے قصے میں ہے وہ بابِ فلسطین
ہیں آج کہاں مسجدِ اقصی کے محافظ
دیتے ہیں نِدا منبر و محرابِ فلسطین
ترقی یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس، مغربی طاقتوں نے جیسے جیسے اپنے ظلم و جبر کو آگے بڑھایا، نہتے فلسطینیوں نے بھی بہادری اور جرآت مندی کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ رہتی دنیا تک انہیں بھلایا نہیں جا سکتا۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی بے پناہ مدد پر پلنے والے اسرائیلی، آئیرن ڈوم کے اندر رہ کر بھی خوف و ڈر سے لرزتے رہتے ہیں جبکہ پتھروں اور غلیلوں سے لڑنے والے فلسطینی بچے، عزت و بے خوفی کی زندگی گزارتے ہوئے، آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اقبال نے بھی فلسطینیوں کو اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
پچھلے سال، صہیونی طاقتوں نے ایک مرتبہ پھر اپنا پورا زور لگا کر، غزہ کی پٹی سے فلسطینی مسلمانوں کی مکمل نسل کشی کرنے کی پوری کوشش کی۔ اکتوبر سے لے کر جنوری تک جاری رہنے والی انکی بھرپور مہم، اپنے مزموم مقاصد حاصل کرنے میں ناکام و نامراد رہی۔ کئی بلین ڈالروں کا ضیاع کرکے اپنی قومی دولت کو بھی قومی ذلت میں بدل ڈالا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ عام امریکی نے صیہونی طاقتوں کے سیاہ چہروں پر سے نقاب اترتے ہوئے دیکھا۔ جنگی جنون کے خلاف امریکہ اور یورپ کی سڑکوں پر اور تعلیمی اداروں میں اتنا بڑا احتجاج ہوا کہ اقتدار کے ایوان لرز اُٹھے اور جنگ کی مخالفت کرنے والے اُمیدوار کامیاب قرار پائے۔ حبیب جالب کی شاعری شاید انہی دنوں کیلئے تھی۔
یزید سے ہیں نبرد آزما فلسطینی
اٹھائے ہاتھوں میں اپنے حسینیت کا علم
ادیبو، شاعرو، دانشورو، سخن دانو
کرو حکایتِ بیروت خون دل سے رقم
شکست جہل کو ہو گی شعور جیتے گا
کرے گا جہل کہاں تک سرِ شعور قلم
آج ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں انتقالِ اقتدار سے پہلے ہی غزہ کی ناکہ بندی میں کچھ کمی آچکی ہے۔ نہتے فلسطینیوں پر مسلسل بمباری میں بھی کچھ وقفہ آیا ہے۔ معاشی پابندیاں بھی کچھ کم ہوئی ہیں۔ غزہ کی پٹی میں زکو فانڈیشن آف امریکہ، شدید مشکلات کے باوجود، پچھلے بیس پچیس سال سے ریلیف کا کام کر رہی ہے۔ ہمارے کئی ساتھی اس جدوجہد میں شہید بھی ہوئے ہیں۔ شمالی غزہ کے حالات تو اس دفعہ اتنے دگرگوں ہو گئے تھے کہ جہازوں کے ذریعے کھانے پینے کا سامان، ائیر ڈراپ کرنا پڑا لیکن ہماری اس تنظیم کے کارکنان نے ہمت نہیں ہاری۔ غزہ میں لوگ بڑی بڑی مشکلات سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی وراثت چھوڑنے کیلئے بالکل تیار نہیں۔اس حقیقت نے کئی لازوال اور بے مثال داستانوں کو جنم دیا ہے۔ بہت جلد مرخ جب یہ سب حقائق دنیا کے سامنے لائے گا تو دنیا دنگ رہ جائے گی۔
اکتوبر سے لے کر آج تک صیہونی طاقتوں نے غزہ میں رہائش پذیر فلسطینیوں پر جس طرح کے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، ان کی مثال تو ساری دنیا کی معلوم تاریخ میں نہیں مل سکتی۔عمارتیں اور سڑکیں تو شاید دوبارہ بن جائیں گی لیکن انسانی زندگیوں کا نقصان تو ناقابلِ تلافی ہے۔ ہزاروں مسخ شدہ لاشیں اس وقت بھی ملبہ میں دبی ہوئی ہیں۔ ان کو باہر نکال کر مناسب طریقے سے دفن کرنے کا انتظام بھی موجود نہیں۔سب سے زیادہ ظلم بچوں اور خواتین پر ڈھایا گیا ہے۔ ریلیف پہنچانے والی بڑی بڑی تنظیمیں بھی بری طرح پریشان ہیں کہ کہاں سے آغاز کریں اور کس کام کو ترجیح دیں۔ ایسی تباہی تو قدرتی آفات بھی اپنے ساتھ نہیں لاتیں جو حشر انسانوں نے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ برپا کر دیا ہے۔ بحیثیتِ انسان، مسلمان اور امریکی شہری، میں غزہ کی ان ہولناکیوں پر شرمندہ بھی ہوں اور اپنے آپ کو مجرم، قصوروار و گنہگار بھی سمجھتا ہوں۔ اقبال نے اس صورتحال پر پریشانی کا اظہار کچھ اس طرح کیا تھا۔
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
٭٭٭