فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ کے ارشادات منزل مقصود پانے کے لئے بہترین مشعل راہ ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہو کر ہم اللہ اور اس کے پیارے محبوبۖ کی رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے کہ ستّرزُناّر کھولنے کے باوجود بھی ایک زُناّر میری کمر میں باقی رہ گیا اور جب کسی طرح نہ کھل سکا تو میں نے خدا سے عرض کیا کہ اس کو کس طرح سے کھولا جائے۔ ندا آئی کہ یہ تہمارے بس کی بات نہیں جب تک ہم نہ چاہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میری بے حد کوششوں کے باوجود بھی درحق نہ کھُل سکا اور جب کھلا تو مصائب کے ذریعہ کھلا اور ہر طرح سے میں نے اس کی راہ پر چلنے کی کوشش کی لیکن ہر کوشش ہے سود ثابت ہوئی اور جب قلبی لگائو کے ذریعہ چلا تو منزل تک پہنچ گیا۔ یعنی مصائب وآلام برداشت کرنے اور عبادت میں قلبی لگائو سے رضاء الٰہی ورضاء مصطفیٰ علیہ الصّلوٰة والسّلام حاصل ہوتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے تیس سال اللہ تعالیٰ سے اپنی ضروریات کے مطابق طلب کیا لیکن اس کی راہ میں گامزن ہوتے ہی سب کچھ بھول گیا اور یہ تمنا کرنے لگا کہ یا اللہ تو میرا ہو جا اور جو تیری مرضی ہو ویسا کر فرمایا کہ جب میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ تجھ تک رسائی کی کیا صورت ہو؟ فرمایا کہ اپنے نفس کو تین طلاقیں دے دے۔ حضرت بایزید بسطامی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر محشر میں مجھے دیدار خداوندی سے محروم کردیا گیا تو اس قدر گریہ کروں گا کہ اہل جہنم بھی اپنی تکالیف کو بھول جائیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر پوری دنیا کی سلطنت بھھی مجھ کو دے دی جائے جب بھی میں اپنی اس آہ کو افضل تصور کروں گا جو میں نے گزشتہ شب کی ہے۔ فرمایا کہ پہلے بزرگان دین معمولی سی چیزوں پر ہی خدا سے راضی ہوگئے۔ لیکن میں نے راضی ہونے کے بجائے خود کو اس پر قربان کردیا ہے اور مجھے وہ اوصاف حاصل ہوئے کہ اگر ان میں سے ایک حبّہ یعنی دانہ کے برابر بھی سامنے آجائے تو نظام عالم برہم ہوجائے۔ فرمایا کہ ایک رات صبح تک اپنے قلب کی جستجو کرتا رہا۔ لیکن نہیں ملا اور صبح کو یہ ندائے غیبی آئی کہ تجھے دل سے کیا غرض تو ہمارے سوا کسی کو تلاش نہ کر فرمایا کہ عارف کا ادنیٰ مقام یہ ہے کہ صفات خداوندی کا مظھر ہو۔ فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو جہنم میں جھونک دے اور میں صبر بھی کر لوں جب بھی اس کی محبت کا حق ادا نہیں کرتا اور اگر اللہ تعالیٰ مجھ کو پوری کائنات بخش دے جب بھی اس کی رحمت کے مقابلہ میں قلیل ہے۔ فرمایا کہ عارف کامل وہی ہے جو آتش محبت میں جلتا رہے فرمایا کہ جب ترک دنیا کے بعد محبت الٰہی اختیار کی تو اپنی ذات کو بھی دشمن تصور کرنے لگا اور جب میں نے ان حجابات کو اٹھا دیا جو میرے اور خدا کے مابین تھے تو اس نے مجھے اپنے کرم سے نواز دیا فرمایا کہ عارف صادق وہی ہے جو خواہشات کو ترک کرکے خدا کی پسندیدگی کو محلوظ رکھے۔ بعض لوگوں نے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ بندوں کو اپنی مرضی سے جنت میں داخل نہیں کرتا۔ فرمایا یقیناً اپنی مرضی ہی سے کرتا ہے لیکن وہ جس کو اپنی مرضی سے اعلی وارفع بنا دے اس کو جنت کی کیا خواہش؟ فرمایا کہ خدا کی یاد میں فنا ہو جانا زندہ جاوید ہوجانا ہے۔ فرمایا کہ دنیا اہل دنیا کے لئے غرور ہی غرو اور آخرت اہل آخرت کے لئے سرور ہی سرور ہے۔ اور محبت الٰہی عارفین کے لئے نور ہی نور ہے اور عارف کی ریاضت یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کا نگران رہے اور عارف کی پہچان یہ ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ مخلوق سے کنارہ کش رہے فرمایا کہ خدا کا طالب آخرت کی جانب بھی متوجہ نہیں ہوتا اور خدا سے محبت کرنے والا اپنی محبت کی بنا پر خدا ہی کی طرح یکتا ہوجاتا ہے۔ فرمایا کہ محشر میں اہل جنت کے سامنے کچھ صورتیں پیش کی جائیں گی اور جو کسی صورت کو اپنا لے گا وہ دیدار الٰہی سے محروم ہوجائے گا۔ یہی مناسب ہے کہ بندہ خود کو ہیچ سمجھتے ہوئے کبھی اپنے علم وعمل کی زیادتی پر نازاں نہ ہو۔ کیونکہ جب تک بندہ اپنے آپ کو ہیچ تصور نہ کرے واصل الی اللہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ خدا کی صفت کا اسی وقت مظاہرہ ہوسکتا ہے جب یہ مقام اس کو حاصل ہوجائے فرمایا کہ علم وخبر ایسے فرد سے سیکھو اور سنو جو علم سے معلوم تک اور خبر سے مخبر تک رسائی حاصل کرچکا ہو۔ اور جو اعزاز دنیاوی کے لئے علم حاصل کرے اس کی صحبت سے کنارہ کش رہو۔ کیونکہ اس کا علم خود اس کے لئے سودمند نہیں فرمایا کہ خداشناس ضرور خدا کو دوست رکھتا ہے کیونکہ محبت کے بغیر معرفت بے معنیٰ ہے فرمایا کہ یہ کلیہ ہے کہ جب تک ندی نالے بہتے رہتے ہیں اس وقت تک ان میں شور ہوتا ہے اور جب سمندر سے مل جاتے ہیں تو تمام شور ختم ہوجاتا ہے۔ یعنی جب بندوں کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کا مقام حاصل ہوجاتا ہے تو بس خاموش ہوجاتے ہیں فرمایا کہ عارف وہ ہے کہ جو ملک و دولت کو معوب تصور کرتا ہو لیکن اس کی عبادت کا صلہ سوائے خدا کے کسی کو معلوم نہیں فرمایا کہ علوم میں ایک ایسا علم بھی ہے جس سے علم واقف نہیں اور زُہد میں ایک ایسا زُہد ہے جس کو زاہد بھی نہیں جانتے۔ اور اللہ تعالیٰ جس کو مقبولیت عطا فرماتا ہے اس پر ایک فرعون مقرر کر دیتا ہے جو ہمہ وقت اذّیت پہنچاتا رہے۔ بس حقیقت یہی ہے کہ انسان فنافی اللہ اور فنافی الرّسول ہو کر ہی منزل پا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭٭