ٹیکساس (پاکستان نیوز) ٹیکساس میں ایک نامعلوم شخص نے یہودی عبادت گاہ میں داخل ہوتے ہوئے چار عبادت گاروں کو اغوا کر لیا جبکہ اس دوران وہ امریکہ کی قید میں سزا بھگت رہی پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتا رہا، یہودی عبادت گاہ میں آن لائن عبادت کے دوران ملزم کی جانب سے عبادت گاہ میں داخل ہونے اور مطالبات کو آن لائن ویڈیو میں دیکھ لیا گیا تھا، اغوا کار نے ایک یہودی عبادت گزار کو رہا کر دیا تھا جبکہ رات گئے ایف بی آئی نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا جبکہ اس کی قید میں تینوں یہودی عبادت گاروں کو بحفاظت بازیاب کروا لیا گیا تھا۔آن لائن ویڈیو کے دوران ملزم کو عافیہ صدیقی کو اپنی بہن پکارتے ہوئے سنا جا سکتا تھا جبکہ ملزم کی جانب سے کئی مرتبہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا، اس خونریز واقعے میں ٹیکساس کے چھبیس ہزار کی آبادی والے شہر کَولی وِل میں ایک شخص نے ایک یہودی عبادت خانے میں گھس کر چار افراد کو اس وقت یرغمال بنا لیا تھا، جب وہاں عبادت جاری تھی اور اس کی انٹرنیٹ پر لائیو اسٹریمنگ بھی کی جا رہی تھی۔ملزم نے لائیو اسٹریمنگ کے دوران جب یرغمالیوں کو اپنے قبضے میں لیا، تو اس کی اس کارروائی اور بعد میں کی جانے والی گفتگو کو بہت سے آن لائن شرکائ نے بھی لائیو دیکھا اور سنا۔یرغمال کنندہ ملزم امریکا کے لیے واضح طور پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہا تھا۔ اس واقعے کی لائیو اسٹریمنگ منقطع ہو جانے سے پہلے تک کے واقعات کے مطابق ملزم نے جو بظاہر نفسیاتی طور پر دباؤ میں تھا، پاکستان سے تعلق رکھنے والی سائنس دان عافیہ صدیقی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں ‘بہن’ کہہ رہا تھا۔ اس کا مطالبہ تھا عافیہ صدیقی کو رہا کیا جائے۔بعد میں ملزم نے یرغمالیوں میں سے ایک کو رہا کر دیا تھا۔ تین یرغمالی آخر تک اس کے قبضے میں تھے۔ پھر کئی گھنٹے بعد امریکا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے اہلکاروں نے عمارت میں داخل ہو کر کارروائی کی، ملزم فائرنگ میں ہلاک ہو گیا اور تینوں یرغمالی رہا کرا لیے گئے۔ایف بی آئی کی جانب سے بتایا گیا کہ ملزم کو شناخت کر لیا گیا ہے تاہم اس کی شناخت یا ذاتی کوائف کے بارے میں فی الحال کچھ بھی نہیں بتایا جا سکتا۔ واضح رہے کہ عافیہ صدیقی وہ پاکستانی خاتون سائنس دان ہیں، جن پر دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ سے تعلق کا شبہ ہے۔ وہ افغانستان میں امریکی فوجی اہلکاروں کے قتل کی کوششوں کے جرم میں ٹیکساس کی ایک جیل میں چھیاسی برس قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔
امریکہ میں یہودیوں کے عبادت خانے میں چار افراد کو یرغمال بنانے والے برطانوی شہری فیصل اکرم کے بارے میں خفیہ ادارے ایم آئی فائیو کو علم تھا۔ عرب نیوز نے برطانوی اخبار دی انڈپینڈنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصل اکرم کا تعلق برطانیہ میں بلیک برن کے علاقے سے تھا جس کو پہلے بھی مجرمانہ الزامات میں سزا ہو چکی تھی لیکن اس کے باوجود وہ ویزہ لینے اور اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ دی انڈپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ معلوم نہیں کہ ایم آئی فائیو کو 44 سالہ فیصل اکرم کے بارے میں کب علم ہوا تھا، تاہم برطانوی شہری کو فوری خطرہ نہیں تصور کیا گیا تھا۔ پولیس کو فیصل اکرم کے مجرمانہ جرائم کا علم تھا۔ سال 2001 میں نائن الیون کے واقعے کے اگلے دن ہی فیصل اکرم نے دہشت گرد حملے سے متعلق جذبات کا اظہار کیا تھا جس کے بعد ایک مقامی عدالت نے ان کے داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ فیصل اکرم کو عدالت کی جانب سے بھیجے گئے خط میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے نیو یارک میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے حوالے سے عدالت کے ایک ملازم کو کئی مرتبہ کہا کہ آپ کو اس جہاز پر ہونا چاہیے تھا۔ چینل سکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے فیصل اکرم کے بھائی گلبر نے سوال اٹھایا کہ انہیں امریکہ تک کا سفر کرنے اور بندوق حاصل کرنے کی اجازت کس نے دی۔ گلبر نے اپنے بھائی کے حوالے سے کہا کہ پولیس انہیں جانتی ہے اور ان کا مجرمانہ ریکارڈ بھی موجود ہے تو پھر انہیں ویزا لینے اور بندوق حاصل کرنے کی اجازت کس نے دی۔ صدر جو بائیڈن نے ٹیکساس واقعے کو دہشت گرد اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیصل اکرم نے اسرائیل اور یہودیوں کی مخالفت میں تبصرے کیے تھے۔ تفتیشی ادارہ ایف بی آئی برطانیہ کی انسداد دہشت گردی کی پولیس کی معاونت سے تفتیش کر رہا ہے کہ فیصل اکرم کی یہودی عبادت خانے کو نشانہ بنانے اور افراد کو یرغمال بنانے کی کیا وجہ تھی۔ برطانوی سیکریٹری داخلہ پریتی پٹیل نے تفتیش کے دوران پولیس اور سکیورٹی سروسز کی جانب سے مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی ہے۔ واقعے کی تحقیقات کے لیے اتوار کو پولیس نے دو برطانوی نوجوانوں کو بھی حراست میں لیا تھا، تاہم اس حوالے سے مزید تفصیلات نہیں سامنے آئیں۔ ٹیکساس واقعے کے دوران فیصل اکرم نے امریکی جیل میں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو افغانستان میں امریکی فوجی پر حملے کے الزام میں قید کیا ہوا ہے۔ ٹیکساس میں واقعے کے بعد ایک ایف بی آئی اہلکار کا کہنا تھا کہ فیصل اکرم کی توجہ کسی ایک مسئلے پر مرکوز تھی لیکن اس مسئلے کا تعلق بالخصوص یہودی برادری سے نہیں تھا۔ ایف بی آئی اہلکار کا کہنا تھا کہ وہ حملے کے مقاصد کا سراغ لگانے کے لیے کام جاری رکھیں گے۔