نیویارک (پاکستان نیوز)امریکہ میں تاریخی سپلائی چین کرائسز نے ٹرانسپورٹیشن سیکرٹری اور سابق سائوتھ انڈیانا کے میئر پیٹی کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیئے ہیں کہ کیا وہ بذات خود اس کرائسز کی بڑی وجہ ہیں کہ جب ملک میں سپلائی چین بری طرح متاثر ہے تو وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ کسی لے پالک بچے کو گود لینے کے لیے چھٹیاں منا رہے ہیں ، ملک میںموسم سرما کی آمد ہے اور سپلائی چین لوگوں کو بنیادی کھانے کی اشیا پہنچانے سے قاصر ہے جبکہ بحری جہازوں کی شپ منٹ بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے ، سی این این کی رپورٹ کے مطابق سپلائی چینز کے مسئلے کی وجہ سے صارفین کے لیے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور کورونا سے متاثر ہونے والی عالمی معیشت کی بحالی سست روی کا شکار ہے۔معیشتوں کی درجہ بندی کرنے والے ادارے موڈیز نے خبردار کیا ہے کہ سپلائی چینز میں تعطل کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ موڈیز نے کہا کہ عالمی معیشت کی بحالی کی رفتار تیز ہونا شروع ہوئی ہی تھی کہ اس میں سپلائی چینز میں جابجا رکاوٹوں کے باعث خلل آنے لگا۔کارخانوں اور کھیتوں باغات سے صارفین تک مصنوعات پہنچنے میں کئی جگہ خلل واقع ہورہا ہے، جس کی وجہ کمپیوٹر چپ کی کمی، بندرگاہوں پر شدید رش اور ٹرک ڈرائیوروں کی کمی کو قرار دیا جارہا ہے۔رپورٹ کے مطابق صورتحال اس قدر گمبھیر ہے کہ آئی ایم ایف نے امریکی ترقی میں ایک فیصد کمی کی پیش گوئی کی ہے، جو کسی بھی جی 7 ملک کی معیشت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ موڈیز نے سپلائی چینز میں مسائل کی کئی وجوہات بیان کیں جن میں سرحدوں پر سخت کنٹرول، نقل و حمل پر پابندیاں، کورونا ویکسین کے ایک عالمی پاس (اجازت نامے) کا نہ بننا شامل ہے۔ اس کے نتیجے میں عالمی پیداوار متاثر ہورہی ہے کیونکہ سامان بروقت اپنی منزل پر نہیں پہنچ رہا جس کی وجہ سے لاگت اور قیمت میں اضافہ ہورہا ہے، اس سب کے باعث دنیا بھر میں شرح نمو متاثر ہورہی ہے۔مختلف ممالک کے درمیان کرونا کے دوران نقل و حمل سے متعلق قواعد و ضوابط میں بھی ہم آہنگی نہیں جس کی وجہ سے ڈرائیورز کو بھی مشکلات کا سامنا ہے، اس کے علاوہ عالمی سطح پر رسد کو رواں رکھنے اور سامان کی نقل و حمل کی رفتار کو تیز کرنے کیلئے کوئی مربوط کوشش بھی نہیں کی جا رہی، یہ سب معاملات صورتحال کو بگاڑ کا شکار کررہے ہیں ادھر سرمایہ کاری کے مالیاتی ادارے جے پی مورگن نے اُمید کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسدی زنجیروں میں یہ رکاوٹیں اگلے سال تک ختم ہوجائیں گی، ہم اس بحران کے نقطے عروج تک پہنچ گئے ہیں اور آگے بہتری کی اُمید ہے۔