پاکستان ، بھارت جنگ کے قریب!!!

0
218

پاکستان ، بھارت جنگ کے قریب!!!

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 25سیاحوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان اور بھارت میں الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے تجارت ، سفارتکاری سمیت دیگر روابط معطل کر دیئے ہیں، یہ سب ہونے کے بعد کشمیریوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ بات یہیں ختم ہوگئی لیکن ایسا نہ ہو سکا، مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ دو راتوں سے فائرنگ کا شدید ترین سلسلہ جاری ہے یہاں تک کہ دونوں اطراف کے لوگوں نے حفاظتی خندقیں بنانا شروع کر دی ہیں، دوسری طرف پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آئندہ دو سے چار دن میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ، ہم الرٹ پر ہیں ۔جب سے نریندر مودی اقتدار میں آئے ہیں ، پاکستان پر نہ رکنے والے الزامات کا سلسلہ ہمیشہ جاری ہی رہتا ہے ، آئے روز کسی نہ کسی واقعہ کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی جاتی ہے جوکہ انتہائی غیر مناسب اور سفارتی آداب کے منافی اقدام ہے ، بھارت کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ، فائرنگ کے واقعہ کے صرف پانچ منٹ بعد پاکستان کو موردالزام ٹہرانے کی بھارتی روش پر پوری دنیا لعن تان کر رہی ہے ،کپواڑہ میں ابھی تک کراس بارڈر فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا ہے لیکن ایل او سی کے نہایت قریب رہنے والے باشندوں میں خوف و ہراس کی لہر پھیل گئی ہے اور کپواڑہ کے کرناہ سیکڑ میں لوگوں نے ذاتی لاگت سے زیرِ زمین بنکرز تعمیر کرنا شروع کر دیے ہیں۔اْوڑی سیکٹر میں بھی لوگ خطرات سے نمٹنے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے لگے ہیں۔ سیکٹر کے بھٹگراں اور چْرانڈا علاقوں میں انڈین وزارت دفاع کی فنڈنگ سے 16 بنکر بنائے گئے تھے، لیکن مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ ان بنکرز میں بجلی یا پانی کا انتظام نہیں ہے۔واضح رہے کہ سنہ 2003 کے نومبر میں انڈیا کے وزیراعظم منموہن سنگھ اور پاکستان کے وزیراعظم کے درمیان لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا لیکن اس پر دونوں افواج مکمل طور پر عمل نہ کر سکیں لیکن 2020 میں جب لداخ میں چینی سرحد پر انڈیا اور چین کی افواج کے بیچ تناؤ پیدا ہو گیا تو انڈیا نے کشمیر ویلی سے فوجیوں کی بڑی تعداد کو لداخ شفٹ کر دیا۔ چند ماہ بعد ہی فروری 2021 میں پہلے سے طے شدہ سیز فائر پر سختی سے عمل کرنے کا ایک اور معاہدہ انڈین اور پاکستانی افواج کے درمیان طے پایا۔پہلگام ہلاکتوں کے بعد ایل او سی پر کراس بارڈر فائرنگ کے واقعات سے لگتا ہے کہ جنگ بندی معاہدہ عملاً ٹوٹ گیا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحد کا مجموعی فاصلہ 3323 کلومیٹر ہے جس میں سے جموں کشمیر میں 744 کلومیٹر طویل اور 34 کلومیٹر چوڑی دنیا کی سب سے خطرناک عبوری سرحد ہے جسے 1949 میں اقوامِ متحدہ نے سیز فائر لائن قرار دیا تھا، لیکن دونوں ملک شملہ معاہدے کے تحت اسے اب لائن آف کنٹرول یا ایل او سی کہتے ہیں۔جموں کے بعد سانبہ، کٹھوعہ اور جموع اضلاع اسی لائن کو انڈیا انٹرنیشنل بارڈر کہتا ہے جبکہ پاکستان اسے ورکنگ باونڈری کہتا ہے۔جموں کے سانبہ، کٹھوعہ، جموں، آرایس پورہ ، راجوری اور پونچھ میں سیز فائر کے تازہ معاہدے سے قبل انڈین حکومت نے ایل او سی کے قریب رہنے والی بستیوں میں 19 ہزار سے زیادہ پختہ زیرزمین بنکر تعمیر کئے تھے۔
جنگی ماحول کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی پابندیاں بھی معاشی نقصان کا باعث بن رہی ہیں، انڈیا کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے بعد پاکستان نے بھی جواب میں کچھ ایسا ہی ردعمل دیا۔ اسلام آباد نے بھی انڈیا سے تجارت مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کیا،ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ تیسرے ممالک کے ذریعے بھی انڈیا کے ساتھ کسی قسم کی تجارت نہیں کی جائے گی۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارتی تعلقات اس وقت منقطع ہو گئے تھے جب پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی مودی حکومت نے اپنے زیرِ اتنظام جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور خود مختاری ختم کر دی تھی۔کشمیر کے تنازع کے باعث دونوں ملکوں کے سفارتی و تجارتی تعلقات متاثر رہے ہیں۔واضح رہے کہ فروری 2019 میں انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں پلوامہ حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان کے لیے موسٹ فیورٹ نیشن کا سٹیٹس بھی واپس لے لیا تھا۔اگر ہم سرکاری اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو سال 2023ـ24 میں اٹاری سے تقریباً 3,886 کروڑ روپے کی تجارت ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ 71 ہزار 563 افراد نے ایک دوسرے ملک کو جانے کے لیے اس سرحد کو پار کیا ہے۔ یہ تعداد سال 2017ـ18 میں اس سے زیادہ تھی۔ اس دوران تقریباً 4,148 کروڑ روپے کی تجارت ہوئی اور 80,314 لوگوں نے اس راستے کا استعمال کرتے ہوئے سرحد پار کی،اب دونوں حکومتوں کے فیصلوں کی وجہ سے سامان اور لوگوں کی آمدورفت رک گئی ہے جس سے دونوں اطراف عوام کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here