مجروح اور خمار، دو شاعر ایک ہی ترنم اور فلمیں !!!

0
43
کامل احمر

وقت بدل گیا، لوگ بدل گئے، تہذیب بدلی اور پھر تفریح کے انداز بدلے۔ فلم مشاعرے شام کو بیٹھ کر ادب شاعری، کتابوں اور فلموں پر تبصرہ جب ہندوستان میں فلم انڈسٹری نے بازو پھیلائے اور خاموش فلموں سے آواز فلمیں بننے لگیں۔ اسکرین پر اداکار چلتے پھرتے اور گیت گانے دیکھنے اور سننّے کو ملے تو تفریح کا انداز ہی بدل گیا۔ پہلے کہانیاں دیکھنا پڑتیں پھر اس میں گیتوں کا دور شروع ہوا۔ اور پلے بیک گانے والوں کا آغاز ہوا زہر بائی انبالے والی، راجکماری اور شمشاد بیگم نے شاعروں کے لکھے گیت گا کر فلم میں چار چاند لگا دیئے۔ کیدار شرما کئی فلم ”بائورے نین” میں راج کماری نے یہ گانا گا کر لوگوں کو بار بار فلم دیکھنے پر مجبور کیا گانا تھا۔ ”سن بیری بلم سچ بول رے۔ اب کیا ہوگا” روشن میوزک ڈائریکٹر کا نام ہوا اور لکھنے والے شاعر اور فلم کے ہدایت کار کیدار شرما تھے اور اُن کا لکھا یہ گیت گلیوں گلیوں لوگوں کی زبان پر تھ۔ راج کماری نے گاتے وقت”اَب” کو اِب” کہا تو کیدارشرما نے ریکارڈنگ روک دی اور بولے پھر سے گائو راجکماری نے اس دفعہ اَب کہا تو پھر ریکارڈنگ رکوادی بوتے نہیں پہلے کی طرح ”اب” ہی کہو اور عرصہ بعد یہ بات راج کماری نے دوسرے موسیقاروں کے درمیان بتائی یہ1950کی بات ہے لیکن اس سے بھی پہلے۔ نوشاد علی نے فلم رتن میں ڈی این موھوک کے گانوں کو اپنی مدھر موسیقی سے ایسا سجایا کہ پورے ہندوستان میں گھر گھر گلی گلی اس کا چرچہ ہونے لگا۔ شادی بیاہ کے موقعہ پر دولہا کے ساتھ خود ساختہ گانے اور بجانے والے اُن کے گانے اپنے رنگ میں استعمال کرتے رہے۔ اے آر کار دار نے فلموں میں کہانی سے زیادہ موسیقی اور گانوں پر زور دیا کاردار پروڈکشن قائم کی اور کئی مشہور فلمیں بنا ڈالیں1946میں وہ فلم شاہجہاں شروع کرچکے تھے اور خمار بارہ بنکوں کے دو گانے قلما چکے تھے کہ مشاعرے میں گئے اور وہاں مجروح سلطان پوری کو سنا تو واہ واہ کئے بغیر نہ رہ سکے۔ نوشاد ان کے ساتھ تھے ان سے کہا کہ مجروح سے ملنا ہے بندوبست کرو۔ دونوں مجروح صاحب کے گھر گئے کار دار صاحب نے کہا ”میں چاہتا ہوں کہ میری فلم شاہجہاں کے گانے آپ لکھیں انہوں نے انکار کیا تو دونوں ان کے استاد جگر مراد آبادی کے پاس گئے اور مدعا بیان کیا جگر مراد آبادی کی بات بھلا شاگرد کیسے ٹالتا راضی ہوگئے۔ اور دو گانوں کے علاوہ بقیہ گانے مجروح صاحب نے ہی لکھے اور خوب لکھے۔ انہیں شاید معلوم نہ تھا کہ خمار بارہ بنکوں دو گانے لکھ لکھ چکے ہیں ورنہ وہ راضی نہ ہوتے دونوں یوپی کے تھے اور ہم عصر تھے مزے کی بات یہ تھی کہ دونوں1919کی پیدائش تھے ایک ماہ کے فرق سے اور دونوں کا انتقال بھی چھ ماہ کے فرق سے ہوا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ دونوں ترنم کے ساتھ مشاعروں کی جان تھے اور آنکھیں بند کرکے سنیں تو معلوم کرنا کہ کون گا رہا ہے مشکل ہوتا تھا۔ دونوں نظر کا چشمہ استعمال کرتے تھے کہ پہچاننا مشکل تھا دور بیٹھ کر اور اگر آپ فلم شاہجہاں کے گانے سنیں تو بھی مشکل ہوگا کہ کونسا گانا کس کا لکھا ہوا ہے۔ افسوس کہ خمار صاحب کو بڑے موسیقال کا ساتھ نہ مل سکا وہ نوشاد سے ذرا مختلف نام ناشاد کے لئے بارہ دری میں لکھنے کے بعد مشہور تو ہوئے لیکن قسمت نے کم ساتھ دیا۔ ہلچل فلم میں گانے لکھے سجاد موسیقار تھے اپنے فن میں مہارت رکھتے تھے۔ ایک گانے کے علاوہ مقبولیت نہ مل سکی کے آصف نے انہیں پسند کیا تو فلم مغل اعظم کے بعد فلم لَو اینڈ گاڈ” کے لئے چنا لیکن کے آصف کی اچانک وفات کے بعد فلم بندی رک گئی پھر کسی نہ کسی طرح1986میں فلم ریلیز کی گئی جو کامیاب نہ ہوسکی امن فلم کے ساتھ ڈبل ٹریجڈی ہوئی پہلے فلم کے ہیرو گرودت چل بسَے اور پھر کے آصف کہا جاسکتا ہے خمار بارہ بنکوں جو کسی بھی طرح کم بڑے شاعر نہ تھے فلموں میں ان کی قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ اور چند فلموں کے بعد وہ مشاعروں تک محدود رہے ہمارے دوست سلیم جعفری نے ابودہابی میں مشاعرے کرانا شروع کئے تو جشن فیض منایا اور ہمارے لکھنے پر خمار بارہ بنکوں کو ہندوستان سے بلوایا اور وہ شاعرے کی جان بن گئے اُن کا یہ شعر
”ایک پل میں ایک صدی کا مزہ ہم سے پوچھئے۔ دو دن کی زندگی کامزہ ہم سے پوچھیئے لوگوں کو یاد ہوگا۔”
اور اب آتے ہیں مجروح سلطان پوری کی شاعری اور فلمی گانوں پر فلم شاہجہاں میں اُن کے گانے جو سہگل نے گائے عام ہوئے۔
نجم دیئے مستقل اتنا نازک ہے دل نہ نہ جانا
جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کرینگے
جب اس نے گیسو بکھرائے بادل آیا جھوم کے
میرے سپنوں کی رانی روحی روحی روحی
اور پھولوں سے لیا رنگ ستاروں سے لیا اجالا
یہ تمام گانے کے ایل سہگل نے گائے تھے اور سب سے زیادہ پسندیدہ گانا تھا ”جب دل ہی ٹوٹ گیا” کہ سہگل نے نوشاد سے خواہش ظاہر کی کہ جب میری ارتھی اٹھے تو یہ گانا بجایا جائے یہ بات نوشاد نے آل انڈیا ریڈیو کے ”میری پسند کے گیت” میں بتائی تھی آج اس بات کو60سال سے زیادہ ہوئے ہمیں یاد رہا۔ اس زمانے میں معاشرہ بھی باذوق تھا لہذا بڑے بڑے شعراء کو فلموں سے بھی پذیرائی ملی۔ شکیل بدایونی، سما جاوید اختر، جان نثار اختر، کیفی اعظمی گلزار کہہ سکتے ہیں ان شعراء نے فلموں کے مرکز کو مضبوط کیا اور1960تک مشاعری فلموں کی جان بن گئی۔ آپ سوچ سکتے ہیں گانوں کے بغیر فلم کیسے دیکھی جاتی یوں کیجئے گانے فلموں کی جان اور دل تھے ساتھ ہی موسیقار بھی۔ نوشاد کھیم چند پرکاش، روشن، ایس ڈی پرمن، اور اس کے ساتھ پلے بیک سنگرز لتامنگیشکر، محمد رفیع، طلعت محمود، مکیش، شمشاد بیگم،
محبوب خان نے فلم انداز بنانے کا اعلان کیا یہ1949کی بات ہے نوشادان کے مددگار تھے اور دلیپ کمار اُن کی اولین پسند۔ نوشاد علی نے ہی مجروح سلطان پوری کا نام تجویز کیا وہ مان گئے فلم شاہجہاں کے بعد یہ اُن کی دوسری مشہور فلم تھی اور فلم انداز نے ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیئے۔ فلم کا یہ گانا ہ رکسی کی زبان پر تھا۔ ”ہم آج ہکیں دل کھو بیٹھے” جھوم جھوم کرنا جو آج گائوں خوشی کے گیت”
”کوئی میرے دل میں خوشی بن کے آیا” ”تو کہے اگر ”اور دوسرے سارے گانوں نے پورے ملک میں دھوم مچا دی لیکن فلم کی دہلیز کے فوراً بعد انہیں جیل جانا پڑا۔ دو سال بعد جب باہر آئے تو ہر پروڈیوسر اُن سے گانے لکھوانے کا متمنی تھا۔ ایک تفصیل ہے کہ انہوں نے250سے زیادہ فلموں کے گانے لکھے پچاس سالہ دور میں تقریباً چھ ہزار گانے سال و ہزار کے آخر تک اُن آخری فلم ون ٹو کا فور تھی کئی ایسی فلمیں جن میں گرودت کی آر پار ہے انکے گانوں کی وجہ سے مقبول ہوئی تھی اور جو آج تک مقبول ہیں۔ تقریباً ہر بڑے موسیقار کے لئے انہوں نے گانے لکھے۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ہندوستانی فلموں کے سب سے مقبول گیت کار تھے فلم دوستی میں نہیں بہترین گیت کار کا فلم فیر ایوارڈ ملا تھا یعنی46سال بعد شاہجہاں انداز اور آر پار کے بعد وہ فلم فیر والے ہی جانتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here