مشیر طالب اس صدی کا آخری بڑا انسان اور شاعر بھی!! !

0
19
کامل احمر

میرے اور سب کے دل پذیر اور دوستوں کے دوست مشیر طالب، ہسپتال کی غفلت سے COVIDکی نذر ہوگئے تھے، زیادہ عرصہ نہیں ہوا، وہ میرے بے حد قریب تھے۔ یونس شرر میں اور مشیر طالب کا تقریباً ہفتہ میں ایک دوبار ملنا ہوتا تھا۔ پرانی باتیں ادھر کی باتیں، شاعروں کی نازک مزاجی سے تنگ مزاجی سب پر تبصرہ ہوتا تھا اور قہقہے لگتے تھے۔ یونس شرر ابھی تک کراچی یونیورسٹی کے دور میں رہ رہے تھے اور وہ سب کو اپنے تابع سمجھتے تھے۔ کبھی غلط اور کبھی درست بات کر جاتے تھے گویا ہم سیکھ رہے تھے۔ مشیر طالب اور ان میں شعروشاعری اور مطلع اور بحریر نوک جھونک ہوتی اور ہم سوجاتے جب بحث ختم ہوتی تو آواز آتی۔ ”اٹھو بھئی بہت سو لیئے” یہ سب باتیں ہمیں ترو تازہ رکھتی تھیں۔ مشیر طالب ہر کسی کی دلجوئی، ہر کسی کی مدد اور ہر کسی شاعر اور لکھاری کی مدد اور معاونت کے لئے پیش پیش رہتے بہت تفصیل ہے ان باتوں کی وہ ہم سے بہت پہلے اس جمگھٹے میں داخل ہوئے تتھے ان کا کہنا تھا”یار سب کی دلجوئی کرو، خوش رہو” ایسا ممکن نہ تھا لیکن ہم اور وہ کافی اچھے دوست تھے۔ ان کے لئے مامون ایمن نے، انکی کاب ”دعائوں کا طالب” جس کا اجرائ12دسمبر2023کو حلقہ ارباب ذوق نیوجرسی میں ہمارے دوست چھوٹا ہونے کے باوجود میں محترم کہونگا کہ وہ اپنی ذات میں محفل ہیں نے کروایا تھا ان ہی کے ذمہ شاعر اور لکھاری اور ادب سے شوق رکھنے والے افراد کو جمع کرنا تھا جس کی تیاری انہوں نے ڈیڑھ ماہ پہلے فیس بک اور وہائٹس اپ پر خوبصورت پوسٹر بنا کر کردی تھی۔ مامون ایمن نے ان کے لئے جو کچھ کہا اس کے ساتھ ہی منظوم خراج عقیدت پیش کیا !
مسکراتی ندیوں میں
موج بن کے رہتا ہے
وہ مشیر طالب اب
یاد بن کے بہتا ہے
شاعری اچھی ہو تو یاد رہتی ہے۔ ہمیں توقع تھی کہ بقول ڈاکٹر عامر بیگ کے انداز ”30افراد ضرورت پہنچیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا صرف بیس افراد نے آکر محفل کو سجایا اور بہت خوب سجایا۔ زیادہ تر وہ لوگ تھے جن سے ہم پہلی بار مل رہے تھے۔ اور ارباب ذوق نیوجرسی کی مجلس عاملہ کے بہت سے لوگ غائب تھے۔ صبیحہ صبا مہمان خصوصی تھیں لیکن ان کو لانے والے غائب تھے اور ایک اچھے شاعر اور ناظم کی کارعین وقت پر گیراج میں تھی اور وہ نہ آسکے موسم کا کوئی بہانہ نہیں تھا۔ دن بھی بڑا تھا لیکن لوگ نہ پہنچ سکے یہ ہی کہہ سکتا ہوں جو میں کسی بچے سے کہہ چکا ہوں۔ ”اللہ میاں نے صحت دی ہے چل پھر سکتے ہو ،پائوں کا استعمال کرو ایسا نہ ہو جوان عمر میں فزیکل تھراپی کرانا پڑے۔ افسوس کا مقام یہ تھا کہ مشیر طالب کی فیملی کی کوئی دلچسپی نہ تھی وہ مشیر طالب جس نے اپنی تمام زندگی اپنے بچوں کے اور بیگم کے لئے وقف کردی اس کی یاد میں بھی شریک نہ ہوں اور اس پر بھی کہ ان سے کوئی ڈیمانڈ(مالی)نہیں کی گئی تھی۔ کتاب کی اشاعت کا سارا خرچہ ڈاکٹر فاروقی کا تھا۔ مامون ایمن نے صاحب نے ہاتھ بٹایا تھا۔ مما زمان جو مشیر طالب سے جڑے تھے، غائب تھے۔ ڈاکٹر شفیق کو اپنے دوست(70 سالہ) کی سالگرہ میں جانا تھا جو ضروری تھا ،شاہد کامریڈ بھی مشیر طالب سے جڑے ہوئے تھے لیکن وہ فلسطین کی آزادی کی تحریک میں شامل ہیں ،انتظام کے باوجود آنے سے معذرت کرچکے تھے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی لیکن آئینہ دکھانا ضروری ہے ہم خود پر بھی یہ کرتے ہیں۔ مشیر طالب ہر کسی کی خوشی اور غم میں شریک رہنے والی واحد شخصیت تھے اور اگر ہم انہیں خراج عقیدت نہیں دے سکتے تو ہم پوچھنا چاہتے ہیں کیا کرسکتے ہیں کس کے لئے بات صرف شریک ہونے کی تھی اور ہم بیمار ہو کر بیٹھے رہے۔ بیمار اس لئے ہوئے کہ نیت نہیں تھی آنے کی۔ کسی کو صدارت پر اعتراض ہوتا ہے۔ کوئی آخر میں پڑھنا چاہتا ہے۔ اور بھول جاتا ہے کہ فیض احمد فیض کو اس سے کبھی غرض نہ تھی اسی لئے وہ یاد رکھے جائینگے اللہ ایسے ہی لوگوں کو نوازتا ہے۔ صلاحیتوں اور شہرت سے اور یہ حقیقت ہے اور جو مہمان اس پروگرام میں شریک ہوئے کچھ دو سو میل کی ڈرائیو کے بعد مشیر طالب کو خراج عقیدت دینے پہنچے تھے کہ جب وہ امریکہ آئے تھے تو مشیر طالب نے انکی معاونت کی تھی۔40سال پہلے ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اس تقریب میں جس کی صدارت مامون ایمن صاحب نے کی تھی ڈاکٹر عبدالقادر فاروقی کی ضد پر اور خود مہمان خصوصی بنے جس کے لئے صبیحہ صبا صاحبہ کا نام پہلے سے تھا۔ ڈاکٹر قیصر طارق نیوجرسی میں رہتے ہوئے نہ آسکیں آفتاب قمر زیدی مذہبی فرائض ادا کر رہے تھے۔ جہاں تقریب تھی اسکے برابر مسجد ہے سنا گیا بہت سے لوگ مسجد میں نئے پیش امام کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے اب یہ کتنا ضروری ہے اللہ جانتا ہے ہم تو خطا کے پتلے ہیں ہم شرکاء کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ دانش اقبال، فرح کامران، مرزا، ارشد علی بیگ، ڈاکٹر نوید اجمل، آصف جاوید، ڈاکٹر حسن معراج، یوسف پٹھان فردوسی فاروقی، محمد حمزہ، دانش اقبال نے خوبصورت ترنم سے اپنا کلام سنایا اور محفل کو گرما دیا۔ ڈاکٹر عامر بیگ بیچ بیچ میں مشیر طالب کا ذکر کرتے رہے اور انکے شعر سناتے رہے۔ ڈاکٹر عبدالقادر فاروقی نے کتاب میں شامل مشیر طالب پر لکھے اپنے مقالے سے اشعار اور انکی تعریف سنائی ان کو شکایت تھی کہ کتاب کے پبلشر مرتب یا ذمہ دار نے انکے مقالے کا قلع قمع کیا ہے۔ یہ بھی کہ مرحوم شاعر کی شاعری پر بے جا تنقید اور اپنی استادی کا چرچہ کیا ہے کہہ کر مزاحیہ شاعر خالد عرفان کے ذوق وشوق اور ادب سے ان کی دیانت داری کی تعریف کی ہمارا خود کا بھی یہ خیال تھا کہ جب کلی طور پر ان کو ذمہ دیا گیا تھا کچھ اچھا کرسکتے تھے۔ حد یہ تھی کہ ٹائیٹل پر عنوان عامیانہ سا تھا۔ ”دعائوں کا طالب” ہم سمجھتے ہیں شہید ہستی کے لئے کچھ اچھا لکھا جاسکتا تھا۔ ہم بے جا تعریف اور خوامخواہ کی واہ واہ کے قائل نہیں اور نہ ہی ساتھ دینے والوں میں سے انکا جو ادب میں بد دیانتی کرتے ہیں انکے لئے ہم نیک تمنائیں پیش کرینگے اللہ انہیں شعور دے اور دوسروں کو سراہنے کا ذوق بھی۔
ہم بتاتے چلیں اس ساری داستان کے پیچھے آج ہی مامون ایمن نے مشیر طالب کی شاعری اور شخصیت”پر کتاب مرتب کرنے کا ارادہ کرلیا ہے جس کے لئے عتیق صدیقی(مشہور کالمسٹ) ڈاکٹر عامر بیگ اور مشیر طالب کے قریبی دوست شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے یہ کتاب مشیر طالب کی شایان شان نہیں ہم کسی حد تک اتفاق کرینگے لیکن ان ادیب شعراء اور لکھاریوں کی ایک عظیم شاعر کے لئے بے حسی اس بات کا ثبوت ہے ہم دھیرے دھیرے دفن ہو رہے ہیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here