”لیول پلیئنگ فیلڈ ”

0
66

پاکستان کی سیاسی تاریخ میںکتنے ہی الیکشن ہوئے لیکن کسی میں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کی بازگشت سنائی نہیں دی کیونکہ پانچ سالوں میں جماعتیں ایک دوسرے کیخلاف کتنی ہی صف آرا کیوں نہ ہوگئی ہوں،الزامات کی بوچھاڑ رہی ہو لیکن الیکشن کے دوران تمام جماعتوںکو میدان میں کھل کر سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا جاتا تھالیکن موجودہ سیاسی حالات میں جہاں ایک جماعت کو دیوار کیساتھ لگانے کیلئے اس کے قائد کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے جبکہ دیگر رہنمائوں کے اہل خانہ کو یرغمال بنا کر ، دھمکیوںسے زبردستی پارٹی چھڑوائی گئی اس کی مثال تو مارشل لا کے دوران بھی کبھی نہیں ملی ، شاید اسی لیے پہلی مرتبہ پاکستان میں الیکشن کے دوران ”لیول پلیئنگ فیلڈ ”کا خوب چرچا ہے ۔حالانکہ ملک میں پائے جانے والے موجودہ سیاسی ہیجان کے ماحول میں حکام، نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تحریک انصاف کے ان الزامات کی تہ تک پہنچنے کا اہتمام کرتے اور کسی کوتاہی کی صورت میں کسی نہ کسی کی سرزنش کی جاتی۔ اس وقت تک جو معلومات سامنے آئی ہیں اسے زیادہ سے زیادہ ‘موقف کے مقابلے میں موقف’ کہا جاسکتا ہے۔ یعنی تحریک انصاف الزام لگا رہی ہے جبکہ ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ایسے کسی وقوعہ سے انکار کر رہی ہے۔ البتہ اگر تحریک انصاف کے الزامات کو اس پارٹی کے ساتھ روا رکھے جانے والے عمومی سلوک کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی جائے تو اس قیاس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ سرکاری طور سے تحریک انصاف کی آن لائن رابطہ سازی مہم کو سبوتاڑ کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ اس قسم کی حرکت کو البتہ احمقانہ اور بے سود ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس سے موجودہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کے علاوہ ریاستی اداروں کی نیک نیتی کے بارے میں عام طور سے شکوک و شبہات پیدا ہوں گے اور تحریک انصاف ان سے حتی المقدور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ اس طرح تحریک انصاف کے پیغام کا بلاک آوٹ کر کے جو مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، نتائج اس سے برعکس سامنے آسکتے ہیں۔الیکشن کمیشن اس وقت ملک میں عام انتخابات کے لئے شفاف ماحول پیدا کرنے کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق نہ صرف 8 فروری کو انتخابات کی یقین دہانی کروائی گئی ہے بلکہ انتخابی شیڈول کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے الیکشن کی نگرانی کرنے والے افسران کو بیورو کریسی سے لینے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے شکایت کی تھی اور سنگل بنچ نے اس حوالے سے حکم امتناع بھی جاری کر دیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر فوری کارروائی کرتے ہوئے انتخابات میں التوا کی کسی بھی کوشش کو ‘توہین عدالت’ قرار دیتے ہوئے فوری طور سے انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ اب یہ انتخابی شیڈول جاری ہو چکا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے سخت رد عمل ظاہر کیا تھا اور اسے انتخابات ملتوی کروانے کی ناروا کوشش کہا تھا۔ یہ کوشش کرنے سے تحریک انصاف کو ایک بار پھر انتخابات میں رخنہ ڈالنے کے الزام کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سپریم کورٹ کے فوری فیصلہ کے بعد خاص طور سے پارٹی کی پوزیشن کمزور ہوئی تھی اور وہ کم از کم انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے دفاعی پوزیشن میں دکھائی دیتی تھی۔ البتہ پارٹی کے آن لائن اجتماع میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات نے اب ایک بار پھر بحث کا رخ موڑ دیا ہے اور تحریک انصاف پھر سے خود کو ‘مظلوم’ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔جمہوری انتخابات کے دوران سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان اعتماد بہت ضروری ہے تاکہ بعد از وقت دھاندلی کے الزامات سے گریز کی کوئی صورت نکالی جائے۔ ماضی قریب کے ناخوشگوار تجربات کے بعد اگلے سال کے شروع میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے خاص طور سے ایسا راستہ نکالنا ضروری ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو کسی سنگین شکایت کا موقع نہ مل سکے۔ تاہم الیکشن کمیشن اور نگران حکومتیں ابھی تک ایسا ماحول پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ تحریک انصاف کو انتظامی رکاوٹوں کا سامنا ہے جبکہ دوسری متعدد پارٹیوں کو کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گرد گروہوں کے حملوں کا خطرہ ہے۔تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخاب اور بلے کے انتخابی نشان کا معاملہ بھی ابھی تک التوا کا شکار ہے۔ تحریک انصاف نے تحفظات کے باوجود الیکشن کمیشن کی طرف سے از سر نوا انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کا حکم مان لیا تھا لیکن الیکشن کمیشن ابھی تک ان انتخابات کے حوالے سے فیصلہ دینے سے گریز کر رہا ہے۔ یعنی یہ بے یقینی قائم رکھی گئی ہے کہ کیا تحریک انصاف کو ‘بلا’ انتخابی نشان کے طور پر ملے گا یا اسے کوئی کسی دوسرے نشان پر انتخاب میں حصہ لینا پڑے گا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here