الزام تراشی کی سیاست مت کریں!!!

0
140
پیر مکرم الحق

چند روز پہلے وزیر آباد پنجاب میں لانگ مارچ کے قافلے پر جو حملہ ہوا جس میں عمران خان گولیوں کے لگنے سے زخمی ہوگئے تھے ،اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ،سیاست ایک عبادت کا درجہ رکھتی ہے، اس میں تشدد کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے لیکن حالیہ دنوں میں ملکی سیاست کے نئے رخ اور نئے انداز سامنے آرہے ہیں۔ کھیل بھی کھیلنے کے کچھ قوائد اور ضوابط ہوتے ہیں ،اسی طرح ہماری زندگیوں کے پیر عمل کے کچھ طور طریقے ہوتے ہیں۔ سیاست کوئی جنگ نہیں لیکن جنگ کے بھی کچھ قوائد ہوتے ہیں جس میں شہریوں کو تحفظ فراہم ہوتا ہے ،فوجی دشمن کے فوجیوں کو تو نقصان پہنچا سکتے ہیں، شہری آبادی کو نہیں لیکن بدقسمتی سے لیاقت علی خاں کی شہادت سے سیاستدانوں کے قتل کا جو سلسلہ شروع ہوا ،اس میں بھٹو خاندان کے چار لوگ قتل کر دیئے گئے ،بشمول گھر کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو، محترمہ بینظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو عالمی سیاسی حلقوں میں برصغیر کا یہ بدقسمت ترین خاندان ہے جس کے چھ میں سے چار افراد کو مختلف انداز اور ذرائع سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ،ایک بوڑھی ماں جس نے اپنی زندگی میں اپنے تین بچوں اور شوہر کی اموات کا صدمہ سہا وہ تو بیچاری جیتے جی ہی مر گئی تھی ،اپنا حواس کھونے کے بعد خالق حقیقی سے جاملیں۔(انااللہ وانا الیہ راجعون) ایک واحد خاتون ہیں صنم بھٹو جو ابھی تک سلامت ہیں ،خدا ان کا حامی وناصر رہے۔ بدقسمت خاندان کی یہ بچی زندہ رہ جانے کے باوجود دُکھوںکی وہ بدقسمت داستان ہیں جو اپنے والد ،والدہ دو بھائیوں اور بڑی بہن کی داستان شہادت بیان کرکے آنسو بہانے کیلئے زندہ ہے۔ آج گڑھی خدا بخش میں آج بھی وہ شہدا زندہ ہیں جن کی قبروں کے درمیان وہ باپ اور بیٹی بھی مدفن ہیں جنہیں دو دو مرتبہ وزراء اعظم پاکستان رہنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ اللہ اللہ ایسا ظلم ہوا کے الامان۔ آج بھی سندھ کے لوگ نہیں بھولے اور آج بھی انکی آنکھیں نم ہوتی ہیں جب بھی بھٹو خاندان کا ذکر ہوتا ہے۔
اس لئے آج بھی ہم سیاست میں پرتشدد رویوں کی مذمت کرتے ہیں چاہے وہ مذہب کی آڑ میں سلمان تاثیر کا قتل ہو یا عمران خان پر ناکام حملہ ہو۔ اللہ پاک عمران خان کو صحتیاب کرے اور انکو لمبی عمر عطا کرے۔لیکن یہ بھی گزارش کی جائیگی کہ عمران خان بھی اپنے کارکنان کو تنبیہ کریں کہ پرتشدد رویہ سے اجتناب کریں اور خان صاحب اپنے الفاظ کا چنائو بھی احتیاط سے کریں۔ آپ ایک تعلیم یافتہ اور خاندانی آدمی ہیں۔ اچھے ماحول میں پرورش پائی ہے ،اوئے چیری بلاسم،چور اور معذور اگر سابق وزرائے اعظم اور سابق صدر کو انقلاب سے نوازیں گے تو اپنی ٹوپی کیسے بچائیں گے، بڑا افسوس کا مقام تھا کہ جب پچھلے دنوں لاہور کی گلیوں سے عمران خان گزر رہے تھے تو ان پر گھڑی چور، گھڑی چور کی آوازیں کسی گئیں۔ سیاست ،جیو اور جینے دو، عزت کرو عزت کرائو کی رسم رائج ہو یہ ہم پڑھے لکھے پاکستانیوں کی خواہش ہے اور رہے گی لیکن جو طوفان بدتمیزی زمان پارک کے ہیرو کھلاڑی آکسفورڈ اور ہاورڈ سے تعلیم یافتہ عمران خان نے سیاست میں قدم رکھ کر شروع کردی ہے، وہ ان کے مذہب اور خاندانی ہونے پر سوالات ابھا رہی ہے۔ بلکل آپ کا حق ہے کہ سابق حکمرانوں کے احتساب کی آواز اٹھائیں لیکن پھر اپنے آپ کو بھی احتساب کیلئے پیش کریں نہ یہ کہ فارن فنڈنگ کا مقصد سننے والے منصف چیف الیکشن کمشنر کو غلیظ القاب سے پکاریں اور اپنی ہی تقرر شدہ چیف الیکشن کمشنر کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھائیں جس کے زیر صدارت ہونے والے انتخابات میں آپکو فتوحات ملیں۔
یہی افواج پاکستان تھی جسکی سربراہی جنرل قمر باجوہ کی مدعین میں آپکی مدد کی ورنہ آپ اگر25برس اور بھی سیاست کرتے رہتے تو وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے جس کی آپ تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے ،آج جب انہوں نے افواج پاکستان کی سیاست میں غیرجانبدار کا اعلان کیا تو اپنے لیے لحاظ کئے بغیر کہ وہ آپکے محسن تھے گندے گندے الفاظ استعمال کئے ۔جانور، غدار اور میر صادق تک کہہ دیا۔ بیشک رب کریم نے آپکو وہ اعزاز بخشا لیکن اس پر عملدرآمد کیلئے جنرل باجوہ کو منتخب کیا گیا۔اگر اب پاک کے ذریعے سے ناشکر گزاری کریں گے تو آپ رب کے بھی ناشکری کر رہے ہیں۔ ساری دنیا جس ادارے کی معترف ہے اسی اہم ترین ادارے کے ایک اعلیٰ افسر کو آپ زبردستی اپنے پر حملہ کے الزام میں گھسیٹ کر پورے ادارے کو ملوث کرکے ملکی دفاعی صلاحیت پر ایک کاری وار لگا کر مفلوج کرے کے درپے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ جس ایجنڈے پر آپ چل رہے ہیں ،وہ پاکستان کے دشمنوں کا بھی ہے ،یہ محض اتفاق تو نہیں!!! آخر میں آپکو یاد دلاتا چلو ں،احسان اور عدل ہی اسلام کی بنیاد ہے اگر آپ ان دوستوں سے دور ہیں تو پھر آپ ریاست مدینہ سے کوسوں دور ہیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here