عظمیٰ نور کا تعلق پریاگ راج اتر پردیش بھارت سے ہے۔ وہ بنیادی طور پر نظم کی شاعرہ ہیں۔ ان کی شاعری کی کتاب آیین حیات منظومات کا مجموعہ ہے۔ دیباچ کتاب کی فرمائش پر چند سطور نذرِ قارئین ہیں۔ ان کی سماجی اور انقلابی شاعری کا تقاضا ہے کہ ان کی ادبی خدمات کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے جو ان کا حق ہے لیکن پھر بھی بقولِ میر تقی میر حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا،آئینہ منافقت سے دور ہوتا ہے ۔ جیسی آپ کی شکل ہو ویسی ہی تصویر ہوتی ہی۔ عطیہ نور کی نظمیں زندگی کے حقائق پر بے لاگ تبصرہ و تنقید ہیں۔ صائب تبریزی کا مصرع ہے آیینہ می گزد منِ آدم گزیدہ را۔ علامہ اقبال بھی کہہ گئے!
تو بچا بچا کے نہ رکھ اِسے ترا آیینہ ہے وہ آیینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آیینہ ساز میں
اِن نظموں کا مطالعہ کر کے یوں محسوس ہوتا ہے کہ دلِ شاعرہ مانندِ شکستہ آیینہ ہے۔ کتاب کے انتساب میں وہ
رقم طراز ہیں۔ زندگی کے تمام تجربوں کے نام اور اِن تجربوں کی نوعیت کو یوں بیان کرتی ہیں۔ زندگی کے ہر رنج و الم کے نام۔ جن خوشیوں کی میں حقدار تھی لیکن محروم رہ گئی ان محرومیوں کے نام۔ زندگی کے تجربوں پر ساحر لدھیانوی کا شعر یاد آیا
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا ہے مجھ کو وہ لوٹا رہا ہوں میں
رہا محرومیوں کا تذکرہ تو اِن کی شاعری چراغ حسن حسرت کے اِس شعر کے آئینے میں نظر آتی ہے!
ناکامِ تمنا دل اِس سوچ میں رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا
عطی نور کی شاعری کے کئی پہلو ہیں۔ آپ کا شاعری میں دردِ ہجراں شدت سے ہے لیکن اس کا اظہار صرف چند نظموں میں ہے۔ نظم خوف اور ایک دوسری نظم خوشبو میں اِس کا اظہار کیا گیا ہے۔ آپ نے حمد میں بھی دعائیہ اشعار کے ساتھ رفاعی اور انقلابی اشعار بھی کہے ہیں!
ظلمتِ شب کی سیاہی کو مٹا دے یا رب
ہر طرف امن کے تو پھول کھِلا دے یا رب
نظم زندگی کہانی اور نظم زندگی در اصل زندگی میں محرومیوں کی داستاں ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی !
تنگ آ چکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
شاعرہ کو یہ زیانِ زندگی کا احساس شدت سے کربناک کر رہا ہے ۔ وہ زندگی کی لطافتوں اور مسرتوں سے کوسوں دور مانندِ نال مہجور ہیں۔ استاد فوق لدھیانوی نے کہا تھا
زندگی لطف اٹھانے کے لیے ہوتی ہے
زندگی ہو تو کوئی لطف اٹھایا جائے
عطیہ نور کے اشعار میں یہ غم، قغمِ زندگی بھی ہے غمِ ذاتی بھی ہے اور غمِ آگہی بھی ہے۔ کہتی ہیں!
رنج میں ڈوبی صداں کے سوا کچھ بھی نہیں
اب ہمارے پاس اِن آہوں کے سوا کچھ بھی نہیں
اِن کی بیشتر نظمیں رجائیت کی عکاس ہیں۔ وہ عزم و حوصلہ کی پرچارک ہیں۔ نظم سخنور اور نظم قلم انقلابی فکر کی آیینہ دار ہیں۔ نظم حادثہ میں عدالتی نظم کی خامیوں اور خرابیوں پر سخت تنقید ہے۔ نظم زندگی کی سلگتی ہوئی ریت میں یاس و بیم کا یوں اظہار کرتی ہیں
تو ملے تو گلے سے لگا لوں تجھے
آ مری زندگی پھر منا لوں تجھے
خود سے بچھڑے ہوئے اک زمانہ ہوا
بِیتا لمحہ وہ سارا فسانہ ہوا
میری نظر میں اِس شعری مجموعہ میں درجِ ذیل تین نظمیں نہایت اہم ہیں کیونکہ یہ عصرِ حاضر کے بہت بڑے المیہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ کاش، سیاست اور دھواں کیسے پھیلا یہ نظمیں عالمی سطح پر نسل پرستی اور مذہبی تشدد کے خلاف شدیداحتجاج ہے۔ علاوہ ازیں بھارت میں ایک خاص طبقہ انسانیت کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور مہاتما گاندھی کے امن دوستی کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ مذہبی تعصب اور فتنہ انگیزی نے بقولِ شاعرہ بھارت کا جمہوری اور سیکیولر چہرہ مسخ کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں
ہندوں کے لئے ، مسلموں کے لئے
ہم لڑے مندروں ، مسجدوں کے لئے
کاش لڑتے کبھی مفلسوں کے لئے
روز مرتے ہیں جو روٹیوں کے لئے
وہ شاعری جو رنگ و نسل اور مذہبی و مسلکی اختلافات و امتیازات و مناقشات و تنازعات کو رد کر کے انسانی حقوق اور انسانی اقدار کی بات کرے وہی زندہ و پایندہ شاعری ہے۔ عطیہ نور کی شاعری زندگی کے حقائق کی شاعری ہے جو اردو ادب میں نقار انقلاب اور درسِ انسانیت ہے ،امن و امان کی تڑپ ہی شاعری کا مقصود اور عروج ہے ۔ بقولِ حافظ شیرازی
ہر گز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جرید عالم دوامِ
٭٭٭