قارئین وطن! آئیں اور سب سے پہلے اپنے ربالعالمین کا ہاتھ اٹھا کر شکر ادا کریں کہ اس نے داعی انقلاب عمران احمد خان کو نئی زندگی عطا کی ہے جس کو طاغوتی طاقتوں نے انقلاب کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کی ہے جس سے اللہ باری نے اپنی مخلوق کی بہتری کے لئے کام لینا ہوتا ہے ،اس کو ایک نہیں کئی زندگیاں عطا کرتا ہے گو یہ وہ مملکت تو نہیں جو ہمیں میں ملی تھی لیکن آج کی مملکت خدادادِ پاکستان سے عالمی منظر میں کوئی بڑا کام لینا ہے، اس لئے عمران خان کو زندہ و تابندہ رکھا ہے،کوئی ہے جو امپورٹڈ حکومت اور ان کے اندرونی و بیرونی سہولت کاروں کو بتائے کہ جب تک پاکستان کی22 کروڑ عوام پنجہ استبداد سے آزاد نہیں ہوتی، عمران خان جیتا رہے گا اور جستجو ِ آزادی جاری رہے گی ۔
قارئین وطن! میں اسٹیٹ کرافٹ کے پاسداروں کے پاسدار جرنل باجوہ صاحب سے اپنی ناتواں کھال بجاتے ہوئے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مملکت کے کیل و نہار اسی طرح رہے تو ملک کس طرح چلے گا؟ میں نے تو ہوش سنبھالتے ہی خاکی وردی کے ظلم و ستم سہے اور دیکھے بھی لیکن اس کے باوجود آپ کے ادارے کی حرمت کو سلام کیا ،اس کی عزت و تکریم کی کہ مملکت کی شان کا مظہر فوج ہوتی ہے لیکن اگر فوج خود ہی ریاستی ستونوں کا توڑ پھوڑ کر کے چوروں، خائینوں اور خفاشوں کا جھرمٹ بٹھا دے تو پھر جو عمران جنگ کر رہا ہے اِن لوگوں کے ساتھ تو پھر ٹھیک ہی کر رہا ہے عوام کیوں ساز باز سونگ رہی ہے وہ کیا کہتے ہیں!
حشر ہو جائے گا برپا راز جس دن کھل گیا
ایک سمجھوتا ہواتھا قاتلوں کے درمیان
جرنل صاحب آپ میر سپاہ ہیں اور ملک کی سرحدی اور نظریاتی سلامتی کے ذمہ دار ہیں، خدارا آگے بڑھ کر اس آرٹیفیشل امپورٹڈ حکومت سے قوم کو نجات دلوائیں، آپ میں ہم سب جانتے ہیں کہ جن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ،یہ لوگ جن کو پی ڈی ایم جانتے ہیں کن مقاصد کو پورا کرنے کے لئے براجمان کروائی گئی ہے ایسے تو نہیں حبیب جالب نے کہا!
بن کہ پھر رہے ہیں ہمارے وہ چارہ گر
جن کا ہم اہلِ درد سے ناطہ نہیں کوئی
اللہ پاک نے عمران کو زندگی اس لئے دی ہے کہ وہ مملکت خداداد کو اس کی اصل منزل تک پہنچائے ، قارئین وطن ! خاکسار نے اپنی پچاس سالہ سیاسی زندگی میں بہت بڑے اور بہت چھوٹے رہنما دیکھے ہیں اور خاص طور سے پچھلے سالہ دور میں جن بونے قدوں سے پاکستان کا واسطہ پڑا ہے، نواز شریف، زرداری اور ان کے پیروکار نے کے اس تیرگی کے سمندر میں عمران خان کی آمد روشنی کا مینار ہے ،میں کئی بار اس کا اظہار کر چکا ہوں کہ میرا عمران کی سیاسی جماعت سے کو ئی تعلق نہیں ،شاہد اس کو بیس بائیس سال پہلے کی ملاقات یاد بھی نہ ہو لیکن میرا وجدان کہتا ہے کہ سردار نصراللہ قائد اعظم کے پاکستان کو استبدادی پنجوں سے یہی آزاد کر وائے گا ،شاید امجد اسلام امجد نے عمران کے لئے ہی کہا ہے !
تیرگی کے گھنے سمندر میں
روشنی تم ہو حوصلہ تم ہو
اللہ نے کیا حوصلہ بخشا ہے کہ زخموں سے چور چور اس کو قوم کی آزادی کی فکر ہے، اس کا عزم جواں ہے اس نے سفر ترک نہیں کیا ،زخموں اور دردوں کے باوجود جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پاکستان آزاد نہیں ہو جا تا ۔
قارئین وطن ! خاکسار بیٹھا تو اپنی دھرتی پر ہے لیکن گھر کی چار دیواری میں مقید ہے ،سیاسی فضا بدلی ہوئی ہے ،ایک زمانہ تھا ،واپڈا ہاوس سے لے کر یونیورسٹی اولڈ کیمپس تک جید قسم کے ریسٹورنٹ ہوا کرتے تھے جیسے کافی ہائوس ، چائنیز لنچ ہوم ، لارڈز ، شیزان ، پاک ٹی ہائوس یہ سب جگہیں نہ صرف پولیٹیکل ورکر بلکہ سیاست دانوں کی تربیت گاہیںہوا کرتی تھیں، اب میرا جیسا بندہ جائے تو جائے کہاں اب نہ یہ جگہیں رہ گئی ہیں، نہ وہ بڑے لوگ رہ گئے ہیں جن سے ہم جیسے چھوٹے لوگ سیکھتے تھے ۔یہ ایک وجہ ہے کہ زمینی حقائق سے بہت دور ہوں لیکن پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ بڑے چھوٹے تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کی گفتگو سے جو حاصل کروں ان کی بنیاد بنا کر اپنے قارئین کے لئے تجزیہ پیش کروں ،عمران خان صاحب پر جان لیوا حملہ کچھ سیاست دان اور خود امپورٹڈ وزیر اعظم ابھی تک اس سے منکر ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب ڈرامہ ہے کون ہے جو نہیں جانتا کہ نواز شریف، شہباز شریف اور دوسری جانب آصف زرداری ایک جرنل جنجوعہ سے لے کر حاملہ عورتوں اور بچوں پر گولیاں چلانے تک کیا کچھ نہیں کیا اور کیا کچھ کر سکتے ہیں،میری گزارش ہے اسٹیٹ کرافٹ کے پاسداروں سے کہ بس بہت ہوگئی ،اب ملک کو ڈگر پر لانے کے لیے حکومت بنا کر الیکشن کا فوری اعلان کروائیں کہ یہی ایک پائیدار پاکستان کی ضرورت ہے ،دھیان کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭