محسن بیگ کی خبر نظروں سے گزری تو سوچا قارئین کے ساتھ ان سے جڑے کچھ تلخ حقائق بیان کرتا چلوں، ریاستی اداروں کو اظہار رائے کو دبانے کے لئے استعمال کرنے کا طریقہ حکومت کے جابرانہ اور ناقابل قبول مزاج کا برملا اظہار ہے جہاں تک محسن بیگ کی بات ہے تو ان موصوف کو راتوں رات امیر ہونے کا بہت شوق تھا اور یہی شوق ان کو 1990 کی دہائی میں امریکہ کھینچ لایا تھا، جہاں محسن بیگ اپنے دوست خالد مارشل کے ساتھ نیویارک کے بورو برائونس کے ایک اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھے، محسن بیگ نے امیر ہونے کے لیے مختلف کاروبار شروع کیے لیکن دال نہ گل سکی۔ محسن بیگ نے بات نہ بننے پر انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے ڈرگز کی دنیا میں قدم رکھ دیا، کم محنت ، کم وقت میں ہزاروں ڈالر کی آمدن نے محسن بیگ کو اس گھنائونے دھندے کی ایسی لت ڈالی کی کہ پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، ملینز آف ڈالر ہتھیانے کے بعد آخر کار پولیس کی گرفت میں آگئے۔ محسن بیگ نے پولیس اور سزا سے بچنے کے لیے سابق جج کی خدمات حاصل کرلیں جوکہ وکیل کے طور پرپیش ہوا۔ محسن بیگ نے سابق جج سے مطالبہ کیا کہ اس کو منہ مانگی رقم دی جائے گی لیکن وہ ہمیں عدالتی فیصلہ سے قبل ہی جج کے فیصلے کے بارے میں آگاہ کرے، سابق جج نے اچھے خاصے پیسے لینے کے بعد عدالتی فیصلے سے ایک روز قبل ہی محسن بیگ کو آگاہ کیا کہ فیصلہ ان کے خلاف ہے اور ان کو کم سے کم 25 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ سنتے ہی محسن بیگ اور اس کے دوست ملینز آف ڈالے لے کر پاکستان فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ محسن بیگ اور خالد مارشل نے پاکستان پہنچ کر ”آن لائن ” کے نام سے اردو نیوز ایجنسی کا آغاز کیا، خالد مارشل نے دفتری معاملات سنبھال لیے جبکہ محسن بیگ نے مرکزی لیڈرشپ اور خفیہ ایجنسیوں سے تعلقات استوار کرنا شروع کیے اور اس میں کامیاب بھی رہے، محسن بیگ نے مشرف ، زرداری اور نواز دور میں خوب پیسہ بنایااور پھر چڑھتے سورج عمران خان کی بھرپور انتخابی مہم چلائی تاکہ اس کے اقتدار میں آنے پر بھی پیسہ بنایا جائے لیکن عمران خان کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی اور محسن بیگ نے آپے سے باہر ہوتے ہوئے بھونڈے انداز میں ٹی وی پر آکر حکومت کے خلاف مہم کا آغاز کر دیا، ٹی وی پر عمران خان اور مراد سعید کو بھرپو رتنقید کا نشانہ بنایا، محسن بیگ ایجنسیوں کے جال میں برُی طرح پھنس چکا تھا جوکب سے امید لگائے بیٹھی تھیں کہ یہ ان کے ہاتھ لگے، گویا مراد سعید کی درخواست دائر ہوتے ہوئے ایف آئی اے حرکت میں آ گئی، لاہور میں مقدمہ درج ہوا اور کارروائی اسلام آباد میں شروع کی گئی۔ ایف آئی اے کے چھاپے کے دوران محسن بیگ نے جس طرح قانون کو ہاتھ میں لیا وہ بھی ان کے لیے وبال جان بن گیا، سیکیورٹی اداروں کو بہانا مل گیا اور پھر محسن بیگ کو حراستی مرکز میں دل کھول کر تشدد کا نشانہ بنایاگیا،عدالت ریمانڈ پر ریمانڈ منظور کرتے جا رہی ہے گویا ایف آئی اے کو بھرپور موقع مل گیا ہے کہ وہ پرانے حساب چکتا کرے۔ تحریک انصاف کی حکومت معاشی، انتظامی، سفارتی اور قومی سلامتی کے تمام شعبوں میں شدید ناکامی کا سامنا کررہی ہے۔ اسی لئے اس کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اپوزیشن کی عمران مخالف مہم کو اپوزیشن کی کسی کارکردگی کی بجائے موجودہ حکومت کی ناکامیاں تقویت دے رہی ہیں۔ جن اداروں کی تائد یا سرپرستی کے بل بوتے پر عمران خان اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں ، وہ بھی دگرگوں معیشت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ اس صورت میں عمران خان اور ان کے معاونین کو میڈیا اور سیاسی مخالفین کو دباؤ میں لا کر مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے اپنی حقیقی کارکردگی کا دیانت داری سے جائزہ لے کر اصلاح احوال کی کوشش کرنی چاہئے۔ صحافیوں کی گرفتاریاں اور ان پر تشدد کے واقعات بحران کی زد پر آئی ہوئی حکومت کے لئے زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔ حکومت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اختلاف برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ وزیر اعظم اور وزرا جس تہذیب و اخلاق کا مطالبہ سیاسی مخالفین اور صحافیوں سے کرتے ہیں، ان کا طرز گفتار بھی اس کا عکاس ہو۔ محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ کو عدالت غیر قانونی قرار دے چکی ہے لیکن وہ خود پولیس ریمانڈ میں ہیں اور ان پر دیگر دفعات کے علاوہ دہشت گردی کے الزام میں مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ واقعات کی ترتیب کے بارے میں ایف آئی اے اور محسن بیگ کے اہل خانہ کا بیان ایک دوسرے سے برعکس ہے۔ لیکن کسی بھی عذر پر کسی صحافی کو کسی سرکاری ادارے کے ارکان کو تشدد کا نشانہ بنانے یا ان کے خلاف اسلحہ استعمال کرنے کی دھمکی دینے کا حق حاصل نہیں ہوسکتا۔ اسلحہ ہاتھ میں پکڑ کر پولیس یا ایف آئی اے کے ارکان کو دھمکانے کے ہر اقدام کی مذمت لازمی ہے۔ لیکن حکومت کو جاننا چاہئے کہ جب وہ سرکاری اداروں کو سیاسی مقاصد اور ذاتی انا کی تسکین کے لئے استعمال کرنے کا اہتمام کرے گی تو اس سے ریاست کی اتھارٹی اور اداروں کا احترام متاثر ہوگا۔
٭٭٭