صبح چائے پیتے پیتے اچانک بی بی سی کے معروف کالم نگار وسعت اللہ خان کا کالم بخشو یاد آگیا، انہوں نے اپنے اس کالم کے ذریعے پاکستان کے حکمرانوں کو جس خوبصورتی سے بیان کیا، وہ آج ایک بار پھر حقیقت کا روپ دھارتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ غرض ان کا لب لباب یہی تھا کہ ہر گلی محلے میں ایک فارغ انسان جس کا نام بھی عموما بخشو ہی ہوتا ہے۔ ہرانسان اسے کوئی نا کوئی ضرورت کے تحت کام لگائے رکھتا ہے کہ بخشو یہ کردو، بخشو وہ کردو اور بخشو بھاگ بھاگ کر یہ کام کرتا ہے۔جب سے ہوش سنبھالی ہے ہم اسی بخشو گری کا شکار ہیں، جب بھی کوئی طاقتور ملک چاہتا ہے، ہمیں کوئی نا کوئی کام سونپ کر چلتا بنتا ہے، پاکستان کا کیا ہوگا، لوگ پر کیا گزرے گئی کبھی بھی پاکستان کے کسی بخشو نے اس بارے میں نہیں سوچا۔ میں یہاں بخشو صرف سیاست دانوں کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو بھی سمجھتا ہوں۔ گزشتہ کالم میں جب میں ایک کہا کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس قوم کی زبان ہوتی ہے تو میرے کسی دوست نے مجھے جوابا لکھ کر بھیجا کہ اگر ایسا ہے تو پھر یاد رکھو ہم پاکستانی، اپنے ان بخشو حضرات کے سبب “گونگے” ہیں۔
ہماری شاید یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں بشمول فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اپنے کو بڑی محنت سے بخشو کا رتبہ دلوایا ہے، بنک اکانٹس لیکس( سوئس بنک سیکرٹس) میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبد الرحمان کے بیٹوں کے اکانٹس میں لاکھوں ڈالرز بخشو گری کا انعام تھا یا بخشو کی ہیرا پھیری مگر اس کا خمیازہ یقین پاکستان نے کسی نہ کسی صورت بھگتا ہوگا۔ ریمنڈ ڈیوس کیس میں تو ہمارے ایک بخشو نے عدالت میں بیٹھ کر بخشو گری کی۔ یہی حال سیاسی بخشوئوں کا بھی ہے کبھی امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کسی ملک سے قریب تو کبھی چین کو خوش کرنے کے لئے کوئی کام سرانجام دے دیا۔ماضی کے کن کن واقعات کو یہاں دہرایا جائے، ہماری تاریخ بخشو گری سے بھری پڑی ہے، اس وقت تازہ ترین صورتحال جو ہمارے بخشو کے لیے نازک ترین ہے وہ وزیراعظم عمران خان کا موجودہ دورہ روس ہے۔ روس یعنی وہ ملک جس نے اس وقت پوری دنیا سے سینگ پھسا رکھے ہیں، انہوں نے ہمیں مدعو کررکھا ہے، اس دورے کے معاشی طور پر جو بھی نتائج سامنے آئیں مگر بخشو کی ثابت قدمی کا بھی یہ بڑا امتحان ہے۔
٭٭٭