مادری زبانوں کا عالمی دن!!!

0
80
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

اکیس فروری مادری زبانوں کا عالمی دن ہے۔جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار داد کے مطابق دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔1998ء میں بنگلہ دیش کے دو نوجوانوں نے اس وقت کے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا کہ بعض بولی جانے والی زبانیں دم توڑ رہی ہیںاور کئی زبانیں صفحہ ہستی سے معدوم ہوچکی ہیں۔اقوام متحدہ نے اقوام عالم سے اپیل کی ہے کہ دنیا میں بولی جانے والی تمام زبانوں کی حفاظ کریں۔اقوام متحدہ کی تحقیق کے مطابق ہر پندرہ دن کے بعد کوئی نہ کوئی زبان ختم ہو رہی ہے۔اقوام متحدہ کی ایک تحقیق کے مطابق چالیس فیصد آبادی جس زبان کو بولتی اور سمجھتی ہے اس میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہے۔اس وقت ایک سروے کے مطابق دنیا میں860زبانوں کے ساتھ پوپوانیوگنی پہلے نمبر پر ہے۔جو کل زبانوں کا بارہ فیصد بنتا ہے۔انڈونیشیا دوسرے نمبر پر ہے جس میں742زبانیں بولی جاتی ہے۔اور نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے جس میں516زبانیں بولی جاتی ہیں۔انڈیا چوتھے نمبر پر اور امریکہ پانچویں نمبر پر ہے جس میں311زبانیں بولی جاتی ہیں۔مختلف اعدادوشمار کے مطابق چینی زبان سب سے بولی جاتی ہے جس کی تعداد ایک ارب بیس کروڑ ہے ہندی، اسپینش، انگلش اور عربی کے بعد جبکہ پنجابی کا نمبر گیارہواں ہے اور اردو انسیویں نمبر پر ہے۔اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینا ان میں سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے اور ان کے اندر تنقیدی انداز فکر کو اجاگر کرنا ہے۔ہمارے یہاں امریکہ میں ہمارے گھروں میں ہماری مادری زبان دم توڑ رہی ہے۔بحیثیت امام جب کبھی پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں کے گھر جانا ہوتا ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بچے اردو، پنجابی میں بات نہیں کرسکتے جس سے وہ ہمارے کلچر اور روایات کو بھول گئے ہیں۔مجھے ایک پڑھے لکھے نامور آدمی کے گھر جانا ہوا جس کا سارا کاروبار پاکستان میں ہے۔صرف بچوں کی اچھی تعلیم اور مستقبل کے لئے یہاں مقیم ہے۔جب ہم گھر میں داخل ہوئے سامنے اس کا بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔باپ نے کہا بیٹا اٹھو امام صاحب آئے ہیں بچے نے امریکن لہجے میں انگلش میں کہا بابا یہ تمہارا امام ہے۔میں کیوں اس کے لئے اٹھوں۔بیچارہ شرسار ہوگیا اس کے برعکس میرے الحمدللہ پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں کیثر تعداد میں ہیں۔میرے گھر میں کوئی بچہ انگلش نہیں بولتا گھر میں صرف پنجابی اور اردو بولی جاتی ہے۔ہر ماہ محفل نعت اور محفل میلاد ہوتی ہے۔جس میں سارے بچے حصہ لیتے ہیں۔اب بچوں کو حیاء کے معنی اور بے شرم اور بے حیاء کا فرق معلوم ہے چونکہ انگلش میں شیم لیس ہے حیاء کا انگریزی میں متبادل ہی نہیں ہے۔سو میرے بھائیو اور بچو امریکہ میں اپنے بچوں کو مادری زبان سکھائو۔انگلش خودبخود سیکھ جائیں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here