انمول تحفے!!!
قارئین کچھ سہنتے کی غیر حاضری کے بعد پھر حاضر ہوئی ہوں ایک تو رمضان کی تھکن عید کی آمد اور اس کے بعد ہماری نواسی کی آمد جو کے عین شب قدر گلے کو رات ساڑھے آٹھ بجے اس دنیا میں تشریف لائیں۔ ان سب نے مل کر ایسا مصروف کیا کے قلم بھی ہاتھ میں اٹھانا مشکل ہوگیا۔ یہ قلم انسان کے دل کی آواز بن جاتا ہے جب اس سے رکھنا شروع کرو مگر یہی قلم کبھی لکھنا بند بھی کر دیتا ہے۔ اور یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب آپ بہت مصروف ہوں پھر دل کی آواز شور مچاتی رہتی ہے مگر قلم کہاں چلے گا اگر جسم اپنے کاموں میں مصروف ہو اور دماغ کہہ رہا ہو کے اب کوئی خیالات نہیں بھیجنا ہے خیر یہ تو ادیب لوگوں کے ساتھ ہوتا ہی رہتا ہے مگر خاص بات یہ ہے کے ہمارے گھر میں ایک ننھی بچی کا اضافہ ہوا ہے اس کی معصوم صورت دیکھ کر کچھ بھی رکھنا پڑھنا موقوف کر دیا مگر ہمارے قارئین کا بھی کچھ حق ہے۔ آج کا موضوع بچے ہیں یہ بچے جو قدرت کا تحفہ ہوتے ہیں ان کی موجودگی ایک ایسی فضا قائم کر دیتی ہے کے جہاں صرف اچھی فکروں کا ذکر ہوتا ہے یہ کب اٹھیں گے یہ کب سوئیں گے ان کو کب دودھ دیا جائے۔ کب نہلایا جائے نہ یہ بات کرتے ہیں نہ یہ آپ کو کسی قسم کا ذہنی تنائو دیتے ہیں نہ یہ آپ کو خوش کرنے کے جتن کرتے ہیں مگر پھر بھی آپ ان کے ساتھ خوش رہتے ہیں۔ ایک نومولود بچہ ہر طرح سے آپ کا دل موہ لیتا ہے اس کے اندر اللہ نے وہ توانائی رکھی ہوتی ہے کے لوگ اس کے اردگرد ہی گھومتے ہیں۔ جب یہ بچے اللہ کی طرف سے نئے نئے اس دنیا میں آتے ہیں تو ان کو پیار سے اور غور سے دیکھئے یہ کسی اور ہی دنیا میں مگن نظر آتے ہیں ان کی کھلتی بند ہوتی آنکھیں لگتا ہے ابھی ا س دنیا میں آنکھ نہیں کھولنا چاہتے آنکھ کھولتے بھی ہیں تو کہیں کی سوچ میں گم نظر آتے ہیں یوں جیسے ابھی اس دنیا سے رابطہ ٹوٹا نہیں ہے جس دنیا سے یہ آئے ہیں۔ ان کی اچانک ابھر آنے والی مسکراہٹ جیسے اس جگہ کی خوبصورتی کے بارے میں سوچ رہے ہیں جہاں سے ان کی روح آئی ہے غرض کے یہ بچے واقعی قدرت کا بھیجا ہوا تحفہ ہوتے ہیں۔ جب تک یہ اس دنیا میں نہیں آتے انسان کو احساس نہیں ہوتا مگر ان کو دیکھ کر جو خوشی اور تواضانیت والدین کے اندر بھرتی ہے اس سے ہی دل سے دعا نکلتی ہے کے اللہ کسی کو اولاد کی نعمت سے محروم نہ رکھے۔ آج کل کے نوجوان والدین بچوں کی موجودگی اس لئے نہیں پسند کرتے کے بہت کام ہوتا ہے۔ بہت مہنگائی بھی ہے بچوں کو پالنا آسان نہیں رہا۔ پھر اکیلے تو بچوں کو پالنا اور بھی مشکل کام ہے۔ گھر والوں کی مدد درکار ہوتی ہے مگر پھر بھی دعا ہے کے جو لوگ اولاد کے خواہش مند ہیں اللہ ان کو اچھی صحت مند اولاد عطا کرے اور جن کو اولاد کی کوئی خواہش نہیں ہے وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں۔ ذمہ داری سنبھالنے سے گھبراتے ہیں ان کے دل میں بھی اولاد کی چاہت دے کیونکہ یہ وہ لڈو ہے جو آپ کھا کر تو دیکھیں اس کی لذت کبھی ختم نہیں ہوگی یہ قدرت کے انمول تحفے ہیں جو زندگی کی نوید لے کر آتے ہیں۔ ان انمول تحفوں کی قدر اللہ ہر دل میں کرے بسائے کے ان کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے۔
٭٭٭