اسلام کیوں؟ پیغامِ امن و آشتی اور سکونِ قلب!!!

0
30

کل نومبر کی شام، ایڈیسن (نیو جرسی)میں واقع مسجد الولی کے کمیونٹی ہال میں احباب ایک خاص مقصد کیلئے جمع تھے۔ مغرب کے فوری بعد منعقد ہونے والا یہ اجتماع دراصل WhyIslam پراجیکٹ کا سالانہ ڈنر تھا،اس ڈنر میں شریک افراد اپنا اپنا ٹکٹ خرید کر آئے ہوئے تھے۔ ہر کسی کو پتہ تھا کہ ابھی تھوڑی دیر میں ایک فنڈریزنگ سیشن بھی ہوگا۔ انتظامات بہت اچھے لگ رہے تھے۔ کچھ مقررین اپنے اسلام میں داخلے کے تجربات بتا رہے تھے اور کچھ اس پراجیکٹ کی اہمیت واضح کر رہے تھے۔ کچھ نئے، کچھ پرانے اور کچھ بہت ہی پرانے چہرے دیکھنے کو ملے۔ برادران شمیم پرویز، حسن رضوی، طارق ضمیر، فرحان پرویز، اشفاق پرکار، انعام الحق، جواد احمد اور عاطف نذیر سے مل کر نہ صرف بہت خوشی ہوئی بلکہ کچھ پرانی خوشگوار یادیں بھی تازہ ہو گئیں۔نوے کی دہائی میں اکنا نیو جرسی کی ینگ پروفیشنلز کی ٹیم، کمیونٹی کی دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ منظم انداز سے اسلام کی دعوت بھی اپنے پڑوسیوں تک پہنچانے کی کوششوں میں مصروف رہتی تھی۔ ان کوششوں کو مزید مربوط کرنے کیلئے طے ہوا کہ مارکیٹنگ اور کمیونیکیشن کے جدید ذرائع استعمال کئے جائیں۔ ان ذرائع میں ایک ٹول فری نمبر کے ساتھ ٹیلیفون کالز لینے کیلئے کال سنٹر کا قیام تھا۔ ہماری ٹیم کے پاس تو کوئی آفس ہی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی تربیت یافتہ پروفیشنل کہ جو عام امریکیوں کو ان کے لہجے میں فون پر جواب دے سکے۔ اسی زمانے میں ویب سائیٹ اور ای میلز کے عوامی دور کابھی آغاز ہو رہا تھا۔ ہماری ٹیم کی خواہش تھی کہ اس ساری نئی ٹیکنالوجی کو دعو کے مقصد کیلئے مثر انداز میں استعمال کیا جائے لیکن مجبوری یہ تھی کہ یہ سب کچھ رضاکارانہ طور پر ممکن بنایا جانا تھا۔ بجٹ نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں تھی کیونکہ ہماری ٹیم کا خزانہ ابھی معرضِ وجود میں ہی نہیں آیا تھا۔اپنے دعو پراجیکٹ کا نام WhyIslam تجویز کرنے کے بعد ٹول فری Vanity نمبر کی تلاش شروع ہوئی۔ 800 سے شروع ہونے والا نمبر ایک قادیانی گروپ نے رجسٹر کروا لیا تھا، اس لئے ہمیں 877 پر اکتفا کرنا پڑا۔ آفس اور فل ٹائم اسٹاف کی غیر موجودگی میں Virtual جانے کا فیصلہ ہوا تاکہ ہمارے رضاکار اپنی اپنی فون لائنز پر کالز وصول کرسکیں۔ اس زمانے میں VirtualPBX کی سروس دینے والی صرف ایک موزوں کمپنی میسر آئی جو بہت زیادہ مہنگی بھی نہیں تھی۔ انٹرنیٹ پر WWW کے عوامی استعمال کے ابتدائی دن تھے۔ اس لئے WhyIslam.org کی ویب سائیٹ رجسٹر کروانے میں کوئی زیادہ دقت پیش نہیں آئی۔ اس زمانے میں کسی ماہر ویب سائیٹ ڈیویلپر کا ملنا بہت مہنگا سودا تھا۔ کچھ عرصہ تلاش کرنے کے بعد بالآخر مجھے خود ہی یہ اہم کام کرنا پڑا۔ شکر ہے ہماری ٹیم کو میری یہ کاوش پسند آئی اور اس طرح فون، ویب سائیٹ، ای میل، پرنٹڈ بروشرز اور دعو بوتھس کے ساتھ یہ مربوط پراجیکٹ لانچ ہوگیا اور اس طرح ہمارے ایک دیرینہ خواب کو تعبیر ملی۔ اللہ تعالی کے خاص فضل سے، مولانا یوسف اصلاحی کی زیرِ سرپرستی، ہماری اس کاوش کو بے پناہ مقبولیت ملی۔ پانچ چھ سال کے عرصے میں ہی کام اتنا بڑھا کہ ہم نے 1.2 ملین ڈالرز کی ایک آفس بلڈنگ خرید لی، کئی فل ٹائم لوگوں کو ہائر کرنا پڑا اور کروڑوں افراد تک اسلام کی دعوت اس پراجیکٹ کے ذریعے پہنچی اور یہ سلسلہ آج بھی مسلسل جاری ہے۔ہمارے اس پراجیکٹ کے سب سے پہلے کوآرڈینیٹر مصدق تھینگ صاحب تھے۔ ان کے بعد یہ ذمہ داری کاشف خواجہ صاحب کے سر آئی۔ ان کے سعودیہ جانے کے بعد طارق ضمیر صاحب اس کے روحِ رواں بنے۔ آجکل امام جواد احمد صاحب یہ کٹھن ذمہ داری نباہ رہے ہیں۔ ان حضرات کے علاوہ دیگر سینکڑوں لوگ اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالتے رہے ہیں۔ میں اس وقت محترم محمود حسینی صاحب کا ذکرِ خیر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک طویل عرصے تک، وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ہمارے کال سنٹر کے سب سے زیادہ کامیاب نمائندہ رہے۔ وہ باقاعدگی سے فون پر اسلام قبول کرنے والوں کا ذکر مولانا اصلاحی سے کرتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ مولانا محترم نے مجھ سے پوچھا کہ یہ باقی لوگوں کی نسبت محمود حسینی صاحب کے ہاتھ پر زیادہ لوگ اسلام قبول کیسے کر لیتے ہیں؟ میں بھی شرارت کے موڈ میں تھا۔ جواب دیا، مولانا، حسینی صاحب کی قوتِ سماعت خاصی متاثر ہے۔ فون پر دوسری سائیڈ پر کوئی کچھ بھی کہتا رہے، وہ اپنی بات مسلسل جاری رکھتے ہیں اور بالآخر کال کرنے والے کو اسلام قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ مولانا خوب محظوظ ہوئے۔ حقیقتا محمود حسینی صاحب کا دعو کے کام میں بہت بڑا حصہ شامل ہے۔
دعو کا یہ پراجیکٹ WhyIslam دن بدن مزید ترقی کر رہا ہے۔ بل بورڈز، سوشل میڈیا اور ابلاغ کے دیگر ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے انگلش کے ساتھ ساتھ اسپینش زبان میں بھی اسلام کا پیغامِ امن و آشتی اور سکونِ قلب لاکھوں لوگوں پہنچایا جا رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں جن چند ینگ پروفیشنلز نے اس کام کی داغ بیل ڈالی تھی، وہ خود تو اب زیادہ ینگ نہیں رہے لیکن ان کا یہ صدقہ جاریہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جوان و توانا رہے گا۔
دعو کے اس مربوط پراجیکٹ کی ابتدا تو نائین الیون سے چند سال پہلے ہوئی تھی کہ لیکن اس سانحے کے بعد اس کی اہمیت اور افادیت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ امریکہ عوام کی بہت بڑی اکثریت کا اسلام سے تعارف مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے کے ذریعے تھا جو ظاہر ہے بڑی حد منفی تھا۔ نائن الیون کے بعد جب انہیں اس پروجیکٹ کے ذریعے حقیقت کا پتہ چلا تو اسلامو فوبیا کم کرنے میں ہماری کمیونٹی کو خاصی مدد ملی۔ آجکل کی جنگیں تو انفارمیشن کی جنگیں ہیں۔ ان حالات میں WhyIslam جیسی کوششوں کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔اور پھر علامہ اقبال نے بھی تو ہماری ہمت بندھائی تھی۔
بے خبر! تو جوہرِ آئین ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here