نارتھ امریکہ میں مقیم ہمارے ہم وطنوں نے یہاں کی رنگینیاں دیکھ لیں، پیسہ کما لیا،گلچھرے اڑا لئے۔ دعوتیں اڑا چکے۔ سوشیالوجی کر چکے۔ آوٹنگز کر لیں۔ سیر سپاٹے کر چکے۔ ویکیشینز گزار چکے۔ لائف انجوائے کر چکے۔ مرد اسٹائل بنا چکے اور خواتین فیشن کر چکیں ،بچوں کو پال چکے ،اپنی اولادوں کی خوبصورت بہاریں دیکھ چکے ۔دنیاوی رعنائیوں میں گم سم اپنی شناختوں کو رہن رکھ چکے۔جوانیوں کی بہاروں کو بڑھاپے کی خزاوں کی نذر کر چکے۔ غربتوں کو امارتوں میں بدل چکے۔ صحتوں کو بیماریوں میں تبدیل کر چکے۔ حالات کی چرہ دستیوں سے کمریں خم کر چکے۔ ہٹے کٹے آ کر ہسپتالوں کی تجربہ گاہوں میں تختہ مشق بن چکے ۔نوابوں کی طرح طرز حیات گزارنے والے نوکروں غلاموں کی طرح رہن سہن رکھ چکے۔ مالکانہ گھروں سے نکل کرادھار کے گھروںمیں قیام پذیر ہو چکے ۔اپنی گاڑیوں کی بجائے سود کی گاڑیوں میں سفر پر مجبور ہو چکے۔ بیرونی ممالک کی اعلی مراعات سے بہرہ مندہ ہو چکے ۔ اولادوں کو اعلی دنیاوی تعلیم دلا چکے۔ کھانے پینے کی حسرتیں پوری کر چکے۔ بلادِ غیر کے مزے لوٹ چکے۔اب انہیں ایک فکر دامن گیر ہو رہی ہے کہ انہوں نے جنسیات کے سمندر میں ڈوبتی نسل کو زہد و تقوی کی ناو نہیں بخشی ۔ انہوں نے فلموں گانوں کے مقابلے کیلئے اپنی نسل کو قرآن و حدیث کا مضبوط شیلٹر نہیں دیا ۔ انہوں نے گمراہی کی تندو تیز آندھیوں کیلئے ہدایت کی جھونپڑی تک نہیں بنائی۔انہوں نے غیروں کی رونقوں کے سامنے غیرت و حمیت کے بازار نہیں سجائے۔ منشیات کے دھت اندھیروں عشق خدا و رسول میں دیپ نہیں جلائے۔ انہوں نے لاکھوں ڈالر اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم پر لگائے مگر سینکڑوں تعلیم قرآن پر خرچ نہ کئے۔ انہوں نے خود انگریزی سیکھنے کی غرض سے اولادوں کو مادری زبان کی لطافتوں سے محروم کر دیا۔ابتدا میں انہوں نے یہاں کے ماحول کو سمجھا نہ تھا وہ یہ نہ توقع نہ کر رہے تھے کہ چاند جیسی اولادیں زلف اغیار میں پھنس جائیں گی جن کے بول و براز صاف کر کے پالا تھا وہ صرف اپنی جسمانی ضرورتوں کے باعث آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں گی۔ہمارے ہم وطنوں نے سوچا نہ تھا دنیا کی خاطر اولادیں دین تو کیا خاندانی کلچر، والدین، بہن بھائی اور رشتہ داروں کو خیرآباد کہہ دیں گی ۔ انہیں کیا خبر تھی جس ملک میں وہ غربت دور کرنے آئے تھے وہاں اپنی اولاد کو ہی پانے کیلئے ٹھوکریں کھائیں گے اور نرسنگ ہومز میں گلیں سڑیں گے۔
اگر کوئی شخص تمام کام کاج چھوڑ کر ایک دفتر کھول کر بیٹھ کر صرف ہم وطنوں کو یہ بتاتا رہے کہ اولادیں کیسے سنوریں گی؟ ان کو راہ راست پر لانے کے لئے کیا ذرائع و وسائل ہیں؟ جوان کیسے شادیاں کریں گے؟ خدانخواستہ منشیات و جنسیات میں پڑی نسل کو ان عادات سے کیسے دور کیا جائے گا؟ کو نسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ اولادیں برہنگی کی بجائے ستر پوشی کو ترجیح دیں؟بے نمازی کی بجائے ادائیگی نماز کے عادی بنیں؟ فلمیں ڈرامے دیکھنے کی بجائے قرآن و حدیث دیکھیں سنیں؟ کیا کیا جائے کہ والدین کا احترام کریں؟کیسے انہیں مذہب کا پابند بنایا جائے ؟کیسے انہیں خونی رشتہ داروں کے قریب کیا جائے؟کیونکر ان کے دل میں مادرِ وطن کی محبت ڈالی جائے ؟تو ایسا شخص ایک ڈاکٹر جتنی کمائی صرف رضاکارانہ خدمت کے عوض ہونے والی خدمت سے کر سکتا ہے۔
میں نے امریکہ میں اپنے 33 سالہ قیام کے دوران جو جو بلنڈر دیکھے ہیں جو جو انہونیاں دیکھی ہیں، ہم وطنوں کی جو جو آب بیتیاں دیکھی ہیں، جو نالے سنے ہیں، جو آہیں فریادیں سنی ہیں، جو تماشے دیکھے ہیں، جو جتن دیکھے ہیں، اگر میں صرف انہیں کو سپرد قرطاس کر دوں تو میرا سخاوت نامہ قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامے اور ابن بطوطہ کے سفر نامے کو کراس کر جائیگا۔ میں نے نسل بچاو کے لئے 1000 صفحات پر مشتمل کتاب ترتیب دے دی تھی ۔نوک پلک کر کے کوئی بھی ہم وطن چھپوا سکتا ہے۔ عجب نظام قدرت ہے جنہیں برین دی ہے انہیں دولت نہیں دی، جنہیں دولت دی ہے انہیں برین محدود دی ہے ۔ میرایہ مضمون کوئی خاص اثر نہیں چھوڑے گانہ ہی اس مضمون سے سماج میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ تاہم میں اپنے ان ہم وطنوں کی روحوں کے سامنے سرخرو ضرور ہو جائوں گا جو اولاد کا غم لے کر ابدی نیند سو گئے۔ کچھ ترستے گئے کہ مرنے سے پہلے اپنے پیارے بچوں کی صورت ہی دیکھ لیتے، کچھ بلکتے گئے کہ پولیس کو کیا بتائیں مرض کا سبب تو اپنے ہی پیارے ہیں۔ اگرچہ بہکی نسل خود مکافات عمل کے پراسس سے گزر ر ہی ہے۔
عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
نوٹ:- میرے مضمون سے خدانخواستہ یہ نہ سمجھا جائے کہ سب اولادیں خراب ہیں یا سب والدین غافل ہیں ۔ غافلوں کی تعداد کم ہے مگر وہ کم اکثریت کو خراب کرنے کے لئے کوشاں ہیں جیسے ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے۔ دعا گو ہوں ! اللہ ہمارے بزرگوں، عزیزوں ، ماوں بہنوں ، بیٹیوں پر رحم فرمائے۔نسل بچاو مہم کی بابت کسی بھی خدمت کے لئے مجھے کال فرما سکتے ہیں۔
856-266-5786
drsakhawat@gmail.com
٭٭٭