ڈاکٹرخالد اقبال یاسر: شاعرِ مزاحمت

0
113
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل رہے ہیں۔ آپ میرے قریبی دوست ہیں۔ ملنسار ، باوقار، وضعدار اور صاحبِ شعور و شعار شخصیت ہیں۔ آجکل فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی میں شعبہ اردو سے منسلک ہیں۔اِ ن میں بیوروکریسی کی کوئی خو بو نہیں ہے۔ اِسی لیے ہر دلعزیز ہیں۔ آپ کے طائرِتخیل کی پرواز آسمان میں اور پاں زمین پر ہیں گویا کسی کمپلیکس (Comlplex) کا شکار نہیں ہیں اور یہی ایک بڑے انسان کی پہچان ہے۔میری نظر میں جو بڑا انسان نہ ہو ، وہ بڑا شاعر نہیں ہو سکتا۔ جن لوگوں کی فطرت اور مزاج میں حاشیہ برداری اور چاپلوسی ہو ان کی شاعری ان کے مرنے سے پہلے ہی مر جاتی ہے۔ اے بسا شاعر کہ بعد از مرگ زاد والوں کا معاملہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں جن شاعروں نے انگریز کے دورِ حکومت میں مزاحمتی شاعری کی ان میں علامہ اقبال اور جوش ملیح آبادی کا نام سرِ فہرست ہے۔پاکستان کے قیام کے بعد جن شاعروں نے آمریت کے خلاف حرفِ حق لکھا اور پرچمِ جمہوریت بلند کیا ان میں فیض احمد فیض، حبیب جالب اور احمد فراز شامل ہیں ۔ڈاکٹر خالد اقبال یاسر نے اپنی دو شعری تصانیف ارسال کیں۔نفیری اور آرسی- یہ دونوں کتابیں ان کی غزلیات پر مبنی ہیں۔آپ کی غزلیات کا رنگ مزاحمتی ہے۔ آپ نے اقتدار کی غلام گردشوں ، حکمرانوں کی چال بازیوں، رعایا کی محرومیوں ، افسروں کی بے ضمیروں ، صحافیوں، شاعروں اور ادیبوں کی گروہ بندیوں پر بھر پور تنقید کی ہے۔ موروثی جمہوریت اور جاگیرداری نظام کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں!
ہر بار وہی تخت،وہی تخت نشیناں
ہر بار وہی ایک سی تقریر پرانی
حاشیہ برداری اور حکومت نوازی کے بارے میں ان کے دو انقلابی شعر ملاحظہ ہوں!
ویسے تو سخن ہی نہ کیا میں نے سرِ دربار
کہنا جو پڑا کچھ تو کہا اور طرح سے
دربار میں ہوتے نہ بنی تخت نشیں سے
دربان سے میری کوئی پرخاش نہیں ہے
آپ کی شاعری کا رنگ و آہنگ روایتی زبان و بیان سے قدرے جدا ہے ۔سہل پسندی کی جگہ کئی قافیے مشکل اور غیر مانوس ہیں اور غیر روایتی دریفوں کی بدولت ادق پسندی کی مظہر ہیں ۔ بعض روایتی غزل کے دلدادہ افراد کو یہ تراکیب اور قافیہ ردیف غزل کے مزاج اور شعریت کے برعکس محسوس ہوتے ہیں لیکن خالد اقبال یاسر اِس کا جواز یوں بتاتے ہیں!
سینچی ہیں میں نے کتنی زمینیں نئی نئی
پھوٹیں سخن کے پیڑ سے شاخیں نئی نئی
آپ کی دوسری شاعری کی کتاب آرسی کا مرکز و محور عورت کے حقوق اور نئے زمانے میں اس کے فعال کردار کے بارے میں ایک مثبت فکر کی غماز شاعری ہے۔ روایتی عورت اور جدید عورت کے درمیان ایک متوازن ، باشعور اور باوقار عورت کے تصور کو اجاگر کیا گیا ہے۔ کتاب کا انتساب بھی اپنی نصف بہتر کے نام سے کیا ہے۔گویا اس شاعری کا بنیادی موضوع علمِ صنفیات اور معاملاتِ نسائیت سے ہے۔ ان کا شعر ہے!
دکھا مصحف اور آرسی نکال
دھرا بیچ میں سر پہ آنچل کو ڈال
آرسی آئینہ کو کہتے ہیں اور مصحف سے مراد قرآنِ مجید ہے۔ہماری ثقافت میں نکاح کے موقع پر دولھا اور دلھن کو ایک آئینہ میں پہلی بار اکھٹا دکھایا جاتا ہے کیونکہ مشرقی اور مذہبی روایات کی وجہ سے شادی سے قبل لڑکی کے اپنے منگیتر سے ملنے پر پاپندی ہوتی تھی اور لڑکی کا منگیتر سے پردہ لازم تھا۔ آر سی کے پیش لفظ میں ادب میں جنسی تفریق پر عمدہ اور معقول خیالات کا اظہار کیا ہے اور تزکیری تانیثیت پر بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے تاریخ میں عورت پر روا رکھے جانے والے مظالم کا ذکر کیا ہے۔ ہندوستان میں ستی کی رسم تھی۔ عورت کو شوہر کی چتا کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا جبکہ عرب میں بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ ڈاکٹر خالد اقبال یاسر لکھتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو احترام اور تحفظ دیا۔ آجکل Feminism کے نام پر جو خواتین ہمارے معاشرے میں عورت کے حقوق کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں اور مغربی تہذیب و ثقافت کی پرچارک ہیں وہ اگر اسلام میں عورت کے حقوق کا مطالعہ کریں تو یہ فسادِ فکر و نظر پیدا ہی نہ ہو۔ لکھتے ہیں۔ مسئلہ صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خواتین اور حضرات دونوں اپنے اپنے فطری طور پر مختلف کرداروں اور مساوی حقوق کے درمیان تفریق نہیں کر پاتے
میری رائے میں یہ تذکیری تانیثیت کے پرچارک ہی ہیں جنہوں نے عالمی سطح پر عورتوں کے حقوق کی آواز اٹھائی ہے۔ شاعروں نے تو عورت کو حور سے بھی بلند قرار دے دیا اور محبوبہ کے نقشِ کفِ پا پر جبین رکھ دی۔ حقوقِ نسواں کا علم بلند کرنا ، چاہے وہ مرد کرے یا عورت قابلِ صد ستائش ہے لیکن حقوقِ نسواں کے نام پر مرد اور عورت میں تفریق و نفرت و تضحیک پھیلانا انسان دوستی نہیں ہے۔ اپنی شاعری کو آپ تزکیری – تانیثی شاعری قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں – اِس مجموعے اور اِس کے نفسِ مضمون سے یہ نکتہ بر آمد ہوتا ہے کہ عورت اور مرد ایک ہی گاڑی کے دو پہئیے ہیں ۔ ایک دوسرے کے بغیر دو نوں نامکمل ہیں۔ اِس لیے اِن کی روز مرہ زندگی کی مجموعی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔میں ڈاکٹر صاحب کی اِس رائے سے متفق ہوں اور عرض گزار ہوں کہ تاریخ ِ انسانی میں عورت ہمیشہ ظلم کا شکار رہی ہے۔ مردانہ برتری Male Chauvinismرسمِ قدیم ہے مگر آج کا ترقی یافتہ مغربی معاشرہ (Female Chauvinism )زنانہ برتری کا شکار ہے۔ امریکہ اور یورپ میں آج کا مرد مظلوم ہے جبکہ مشرق میں آج بھی عورت مظلوم ہے۔ عرب ممالک میں آج بھی اہلِ زور و زر کے حرم ہیں عورتیں لونڈیاں ہیں۔اگر انسان کی فوز و فلاح ہے تو وہ مرد اور عورت کے مساویانہ حقوق اور دونوں کے فطری اور انسانی حقوق کا احترام ہے۔ قرانِ مجید میں بھی آیت ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس یعنی زینت اور تحفظ ہیں۔
قرآنِ مجید میں تو ایک سورہ کا نام ہی سورہ النسا ہے۔ آپ نے جبل الرحمت پر جو آخری خطبہ ارشاد فرمایا وہ حقوقِ نسواں کا ابدی چارٹر ہے۔ میری رائے میں مرد کے کچھ فطری مناصب اور عورت کے بھی کچھ فطری تقاضے ہیں۔مارٹر لوتھر کا قول ہے کہ مرد کے ہاتھ میں تلوار اور عورت کے ہاتھ میں سوئی سجتی ہے۔مگر خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جب مرد کے ہاتھ میں سوئی اور عورت کے ہاتھ میں تلوار پکڑا دی جائے۔یورپ نے یہی کیا ہے اور نتیجہ بھگت رہا ہے۔
آزادء نسواں کے نام پر یورپ میں جو خانگی، معاشرتی ، سماجی اور اخلاقی فساد و فتنہ برپا ہوا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ آزادء نسواں اور شے ہے، بربادء نسواںاور شے۔ ڈاکٹر خالد اقبال یاسر قابلِ صد ستائش ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کو مثبت اور اصلاحی اندازمیں پیش کر کے نہ صرف مرد و زن کی تفریق، مسابقت اور رقابت کے خود ساختہ تصور کو رد کیا بلکہ مرد و زن کی باہمی محبت، احترام اور مساوی اور فطری حقوق کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا جو اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here