ہمارا پاکستانی میڈیا!!!

0
76
مجیب ایس لودھی

پاکستان میں سیاستدان کی محاذ آرائی اور ذاتی لڑائیاں کوئی نئی بات نہیں، اپنی اپنی حکومتوں میں تمام جماعتیں ہی ایک دوسرے کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بناتی ہیں لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہواہے کہ سیاسی جماعتوںکی لڑائی میں صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے ، پاکستان میں عمران ریاض کو جس طرح دن دیہاڑے غائب کیا گیا ہے اس کی مثال پہلے کبھی نہیںملتی، کئی صحافتی ادارے بھی اپنی پالیسیوں سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ 1995ء میں پاکستان نیوز کا اجراء ہوا تو پاکستانی کمیونٹی میں دو اخبارات کا راج تھا لیکن وہ دو اخبارات جن کا تکبر اور زرد صحافت اپنے اختتام کو پہنچ چکے ہیں، وقت بڑی ظالم چیز ہے، مجھے یاد ہے جس طرح کمیونٹی کے لوگ جن میں کاروباری حضرات، سیاسی افراد اور صحافتی افراد شامل ہیں ان دو اخبارات کے مالکان سے ڈرتے تھے، مجھے الحمد اللہ فخر ہے کہ پاکستان نیوز، کی آمد کے بعد رفتہ رفتہ ان کا خاتمہ ہوا لیکن مجھے کہنے دیں ان کی کچھ باقیات آج بھی مختلف صورتوں میں کچھ کچھ باقی ہیں۔ میری صحافتی زندگی 28 سال پر مشتمل ہے ہمیشہ خواہش رہی کہ صحافتی برادری کا ایک پلیٹ فارم یہاں بھی ہونا چاہیے لیکن کچھ صحافتی برادری کے لوگوں کو شک ہے کہ ایسا ہونے سے ان کی کمزوریاں سامنے آجائینگی میں نے کبھی اپنے پاکستان نیوز کا ذکر نہیں کیا کہ آج الحمد اللہ پاکستانی کمیونٹی کا اہم بڑا اخبار ہے، نیویارک سے گزشتہ 28 سالوں سے ہر ہفتہ شائع ہوتا ہے اور شکاگو، ہیوسٹن، کینیڈا میں برابر ہر ہفتہ پرنٹ ہوتا ہے جبکہ 18 سے زائد شہروں میں اس کی ڈسٹری بیوشن ہر ہفتہ ہوتی ہے لیکن کچھ نئے لوگ جو کہ سوشل میڈیا کا سہارا لے کر ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ آج اخبار کی اہمیت ختم ہو چکی ہے بھائی لوگو اگر ایسا ہوا ہوتا تو سب سے زیادہ الحمد اللہ اشتہار و خبریں ”پاکستان نیوز” میں کیوں ہوتیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان میں صحافتی برادری پر ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے میں نے اور فہیم میاں و معاذ صدیقی نے ایک میڈیا مذمتی اجلاس بارے بیٹھک کا پروگرام بنایا اللہ کے کرم سے بھرپور طور پر صحافتی برادری آء اور خصوصاً سفیر، تجزیہ نگار، جہانگیر خٹک نے بہترین اختتام کیا میں تمام پاکستانی صحافتی برادری کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے بھرپور شرکت کی جن میں ریاض بابر (ٹی وی ون) معاذصدیقی (دنیا ٹی وی)، کامل احمر، یوسف خان، ظفر اقبال، رانا معظم (آج ٹی وی)، حیدر علی، محسن ظہیر، اقبال کھوکھر، برادر منظور، برادر صمد، رانا رمضان اور شاہد کامریڈ شامل ہیں اجلاس میں ہر صحافی نے کُھل کر اپنی رائے دی، اختتام پر سینئر تجزیہ نگار جہانگیر خٹک نے اپنے اختتامی کلمات کیساتھ مذمتی اجلاس کا اختتام کیا اور برادر امام خلیل نے دعا کرائی۔ اس پہلے میڈیا کے مذمتی اجلاس میں مجھے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ پاکستانی میڈیا کی بھرپور حاضری تھی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کیساتھ زیادتی بارے سب متحد ہیں سب نے عمران ریاض کی ناجائز گرفتاری کی شدید مذمت کی۔ اس سے قبل ارشد شریف کے ظالمانہ قتل کی بھی مذمت کی گئی۔ سب نے پاکستان میں صحافتی برادری پر ظلم و ستم کی شدید مذمت کی۔ اجلاس میں کسی نے بھی کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت کی کوئی بات نہیں کی ،سب نے صرف صحافت کی آزادی بارے گفتگو کی اور حکومت وقت کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے صحافی برادری پر ظلم کرنا بند نہ کیا تو عالمی پیمانے پر احتجاج شروع کیا جائیگا جس سے پاکستان کی بدنامی کا خطرہ ہے اس لیے حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ صحافی برادری کا گلا گھوٹنے کی بجائے صحافتی آداب کا خیال رکھے سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذمتی اجلاس سے ایک بات کا فائدہ ہوا کہ ہم نے ایک متحد پلیٹ فارم کی جانب پہلا قدم رکھا ہے ،اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ وقت دور نہیں جب عملی طور پر صحافتی برادری کا اپنا ایک پلیٹ فارم ہوگا جو کہ ان کی اپنی پہچان ہوگی۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here