پرانے وقتوں میں نائی لوگوں کی غم اور خوشی کے موقع پر کھانے پکانے کا کام بھی کرتے تھے، اسی تناظر میں ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک نائی کسی چوہدری کی بیٹی کی شادی کا کھانا پکانے گیا اور اس سے چاول خراب ہوگئے۔ اب شرمندگی سے بچنے کے لیے نائی نے چودھری کو بلا کر کہا کہ دیکھو کھانا تو میں تیار کر رہا ہوں مگر کسی نے یہاں پر پٹاخہ چلایا یا ڈھول بجایا تو آپ کے چاول خراب ہو جانے ہیں، اب شادی کے موقع پر ان دونوں چیزوں سے بچنا محال ہوتا ہے لہٰذا جیسے ہی برات گائوں میں داخل ہوئی، باراتیوں نے پٹاخے چلائے اور ڈھول بجائے، جیسے ہی ڈھول کی آواز نائی کے کانوں میں پڑی، اس نے اپنی چادر کندھے پر رکھی اور چلتے ہوئے کہا کہ میں نے کہا بھی تھا کوئی پٹاخہ چلائے اور نہ ہی ڈھول بجائے۔ اب چاول خراب ہوگئے ہیں، اپنے چاول سنبھالو، میں تو چلا۔
چند سال قبل پاکستان کو بھی ایک ایسے نائی(حکمران)سے روشناس کروایا گیا، حکمرانی سنبھالنے کے بعد اس نے پاکستان کے چوہدری(سیاسی فوجی جرنیل)سے کہا کہ وہ اقتدار ان شرائط پر چلائے گا کہ اپوزیشن کا نام و نشان نہ ہو،گائوں کے چودھری نے نائی کی ان شرائط پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کی کہ اپوزیشن کی آواز کو یا تو دبا دیا جائے یا اپوزیشن کو پابند سلاسل کرکے ان کے عوامی راوبط کو توڑا جائے۔خصوصا میڈیا سے بھی یہ درخواست کی گئی کہ آپ چھ ماہ تک بالکل مثبت رپورٹنگ کریں حالانکہ یہ کہنے کی ضرورت بالکل نہیں تھی وہ بزور ڈنڈا بھی ایسا ہی کروا رہے تھے۔ حکمران کو ہر ممکن سہولت فراہم کی گئی مگر اس حکمران نے ملکی حالات کی جو دیگ تیار کی، اس میں ایسے انگارے موجود تھے جنہوں نے گذشتہ ہفتے پاکستان میں اپنے بھرپور جلوے دکھائے۔ اب گائوں کا چودھری سر پکڑ کر بیٹھا ہے کہ شادی پر ڈھول بجانے دیا نہ ہی کوئی پٹاخہ چلانے دیا مگر پھر بھی ہماری دیگ خراب کیوں ہوگئی، صورت حال اب یوں بنی ہے کہ چوہدری لاڈے نائی پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں اور اس سے پہلے والے نائی چودھری پر بھروسہ کرنے کو تیار نظر نہیں آتے کیونکہ ان کی سمجھ میں آ چکا ہے کہ ہر بار گائوں کا چودھری دیگ اچھی تیار کرنے والے کو چکھنے کا موقع بھی نہیں دیتا اور پکی پکائی یہ سیاسی دیگ اٹھاکر کسی اور دربار پر تقسیم کرنے لے جاتے ہیں۔
٭٭٭