سورہ نور کی آیت نمبر اکتیس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خاوند کے ،اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے، اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ”
جوناتھن سوان کو دیئے گئے انٹرویو میں ایبسولیوٹلی نو کا بڑا چرچا ہے کہ خان نے دو ٹوک امریکہ کو اڈے دینے سے منع کر دیا لیکن جو بات وزیر اعظم عمران خان نے اس سے بھی زیادہ زور دے کر کہی اور جس بات پر انٹرویو کا اختتام ہوا اور عمران خان نے انٹرویو ختم ہونے کے بعد بھی اپنی ناراضگی کا اظہار جاری رکھا وہ اسلامی احکامات کی غلط طریقے سے تشریح اور انٹرویور کی نا سمجھی ہے کہ اسے نہیں معلوم کی ہمارے معاشرے کی اسلامی اقدار ہمیں بے حیائی اور بے لباسی سے منع کرتی ہیں اور ستر ڈھانپنے کے بارے میں حکم دیتی ہیں اور اس بارے میں عمران خان نے وضاحت سے بیان بھی کر دیا کہ مغربی معاشرے میں ان باتوں پر شاید کسی کا دھیان نہ جائے مگر ہمارا معاشرہ بے حیائی اور بے لباسی کا متحمل ہر گز نہیں ہو سکتا ،یہ سچ ہے کہ اندر کھاتے میں ہم ”پورن” دیکھنے والی پہلی دوسری قوموں میں شامل ہیں ۔اس میں شاید جنسی گھٹن کار فرما ہو لیکن پھر بھی پاکستان ورلڈ پاپولیشن کے سروے کے مطابق ہم ایک سو نو ممالک میں کہیں بھی نہیں ہے جہاں زنا بالجبر ہو تے ہیں الحمدللّٰہ ثمہ الحمدللّٰہ کہ ہماری اقدار اس حد تک سلامت ہیں، میڈیا اور انٹرنیشنل میڈیا بڑھا چڑھا کر ہمارے بارے میں بے سروپا پراپیگنڈہ کرتا رہتا ہے ابھی نئے قانون کے تحت بچوں اور عورتوں سے زیادتی کے کیسزکے بارے میں بھی سخت سزاؤں کا قانون پاس کیا گیا ہے کچھ لبرل عمران خان کے انٹرویو کو تروڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش میں بھول گئے کہ ہم اس اسلامی معاشرے میں زندہ ہیں جہاں ہماری ماں، بہن، بیٹی اور بہو کی عزت محفوظ رکھنا کتنا اہم ہے ۔اس بارے میں عمران خان کے بیان کو سنہرے حروف میں لکھے جانے کی ضرورت ہے کہ جب لباس پر توجہ نہ دی جائے گی تو اس کے بھیانک نتائج بھی نکلیں گے نوجوانوں کے پاس کوئی آؤٹ لیٹ نہیں ہے اس سے ہیجانی کیفیت کا پیدا ہو جانا لازم ہے لحازہ ہمیں اس بارے سوچ بچار کرنا ہوگا میں ایران اور سعودیہ جا چکا ہوں جہاں پردے بارے سختی کروائی جاتی ہے ایران میں ایک وقت تھا کہ جب عورت غیر محفوظ تھی، آج مانتو ( لمبا کالا چوغا ) پہن کر عورت اپنے آپ کو قدرے محفوظ تصور کرتی ہے اور سعودیہ میں اجازت دیئے جانے کے باوجود عورت اسی اسلامی روایات کی حامل ہے جہاں پردہ اسکی زینت بن چکا ہے ،پاکستان میں بھی اس بات کو سمجھا جانا چاہئے کہ ہمیں اپنے معاشرے کو اسلامی اصولوں کے تحت ہی پروان چڑھانا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عورت ایک بے بہا خزانہ ہے اور خزانہ چھپا کر ہی رکھا جاتا ہے باہر نکل کر کام کرنے سے منع نہیں کیا ،بے حیائی اور بے لباسی کی ممانعت بارے بات کی ہے۔
٭٭٭