ہیوسٹن میں پہلی عالمی اردو کانفرنس !!!

0
81
شمیم سیّد
شمیم سیّد

انٹرنیشنل آرٹس سوسائٹی ہیوسٹن امریکہ اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی مشترکہ کاوش سے امریکہ میں پہلی بار عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد شاندار طریقے سے سوک سینٹر میں ہوا، جس میں بڑی تعداد میں اردو سے محبت رکھنے والے ہر پاکستانی، انڈین، بنگلہ دیشی لوگوں نے بلا تفریق شرکت کی۔ اردو کانفرنس 7 بجے شروع ہوئی تلاوت کلام پاک سے افتتاح ہوا، پہلے دور میں احمد فراز مرحوم کی شاعری پر تبصرہ ہوا اور درمیان میں ان کی غزلوں کو ہیوسٹن کے ایک آرٹسٹ، مصور عارف نے خوبصورتی سے گایا۔ محبوب ظفر، اشفاق حسین اور مجید اختر نے احمد فراز کے بارے میں اپنے اپنے تاثرات اور واقعات پیش کئے۔ جس کو وہاں موجود لوگوں نے بہت پسند کیا۔ شاید ہمارے آرگنائزرز کو معلوم نہیں تھا کہ جس دن وہ یہ پروگرام کر رہے ہیں وہ حج کی تاریخوں میں ہوگا، ہوسکتا ہے میری یہ بات لوگوں کو ناگوار گزرے لیکن میرا کام نشاندہی کرنا ہے اگر اس پروگرام میں ناچ گانا نہ ہوتا تو بھی یہ پروگرام کامیاب رہتا۔ بظاہر اس کو صوفی رقص سے تشبیہہ دی گئی لیکن تھا تو وہ رقص ہی اور ان دنوں میں پرہیز کرنا چاہیے تھا یہ طائفہ شکاگو سے آیا تھا، ہمارے ہیوسٹن کے فیاض مرچنٹ ویسے تو میمن ہیں لیکن اردو زبان کیلئے ان کی خدمات آج کل بہت زیادہ ہیں اور باسط جلیلی کیساتھ ان کی وابستگی نے اور چار چاند لگا دیئے اور وہ مشاعرے کرتے رہتے ہیں انہوں نے اپنے جوش خطابت میں جو بات کہی اس کو ناظرین بہت پسند کیا، انہوں نے کہا کہ بھٹو زندہ ہے میں اس سے اتفاق نہیں کرتا ہوں، ہاں اردو زندہ تھی اردو زندہ ہے اور اردو ہمیشہ زندہ رہے گی جس پر تمام ہال تالیوں سے گُونجتا رہا۔ ڈاکٹر آصف قدیر نے اردو اور احمد فراز کیساتھ گزارے وقت کے بارے میں لوگوں کو بتایا۔ احمد شاہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ پچھلے دس سالوں سے کراچی میں آرٹس کونسل کے بینر پر عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کرتے رہے ہیں ان کو اردو بولنے پر بھی بڑا عبور حاصل ہے انہوں نے جس طرح تمام زبانوں کے لوگوں کو جوڑ کر رکھا ہوا ہے وہ بے مثال ہے اب انہوں نے بتایا کہ وہ صرف اردو ہی نہیں بلکہ پنجابی، سرائیکی، بلوچی، سندھی زبانوں کی بھی کانفرنس کر رہے ہیں اور جو نفرت کا بیج زبانوں کی بنیاد پر ہمارے ملک میں بویا گیا تھا اس کو جڑ سے نکال پھینکنا چاہتا ہوں ہم سب کو مل کر ساتھ چلنا ہے کیونکہ جب ہندوستان اُجڑا تو کراچی آباد ہوا اس وقت صرف اردو زبان ہی تھی جو سب کو متحد رکھ سکتی تھی اس لئے ہم سب اس پر متفق ہو گئے تھے احمد شاہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے نورالہدیٰ شاہ جو سندھ کے بڑے رائٹر ہیں انہوں نے کہا کہ ہماری زبان اردو ہے اور تمہاری زبان سندھی یہ وہ محبت تھی جو احمد شاہ نے لوگوں کے دلوں میں ڈال دی شاہ صاحب خوش رہیں اور اپنا کام جاری و ساری رکھیں۔ مرزا غالب پر ایک خوبصورت اسٹیج پلے بھی کیا گیا جس کو مرزا غالب ہل کرافٹ کا نام دیا گیا جس کو بہت خوبصورتی سے نور خواجہ جو نوشہ بنے تھے اور ان کیساتھ محبوب خان نے اپنی خوبصورت اداکاری سے چار چاند لگا دیئے۔ ہیوسٹن کے اسٹیٹ نمائندے ڈاکٹر سلمان لالانی نے اردو کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آرٹس کونسل کراچی کے صدر احمد شاہ اور آرٹس سوسائٹی کے فیاض مرچنٹ اور باسط جلیلی کو تعریفی اسناد بھی پیش کیں۔ مشاعرے کی نظامت ناظم اعلیٰ باسط جلیلی نے شاندار طریقے سے سر انجام دی، ان کا ساتھ نازیہ افتخار نے دیا۔ مشاعرے کے صدر سرمدصہبائی تھے۔ جنہوں نے اسٹیج پر بیٹھ کر وہ حرکتیں کیں جن کو دیکھ کر شرمندگی محسوس ہو رہی تھی باوجود منع کرنے کے وہ اپنی باتیں بند نہیں کر رہے تھے ان کو یہ بھی خیال نہیں تھا کہ وہ کتنا بڑامقام رکھتے ہیں لگتا تھا کہ وہ مشاعرے کو بگاڑنے کیلئے آئے ہیں، مشاعرے میں شریک شاعروں میں پاکستان سے تشریف لائے ہوئے سرمد، محبوب ظفر، عمر رضا شہزادہ، کینیڈا سے راشدہ شاہین، رحمان فارس، انگلینڈ سے عامر امیر، جرمنی سے عاطف توقیر کے علاوہ ہیوسٹن سے غضنفر ہاشمی، مجید اختر، خالد خواجہ، باسط جلیلی اور عشرت آفریں شامل تھے۔ لوگوں نے دل کھول کر شعراء کرام کو داد دی۔ اس عالمی مشاعرے میں جو انتظامات کئے گئے تھے وہ بہت اعلیٰ تھے اب تو جہاں بھی فیاض مرچنٹ اور باسط جلیلی کا نام آجائے وہ پروگرام کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے۔ اس شاندار اردو کانفرنس کے انعقاد پر احمد شاہ، فیاض مرچنٹ، اور ناظم اعلیٰ باسط جلیلی مبارکباد کے مستحق ہیں اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں لوگ نہیں آئے ،پورا ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here