فرائض ادا کرنے والے خود قربان ہوگئے!!!

0
84
حیدر علی
حیدر علی

جب بنگالی گروسری اسٹور کے مالک نے لڑکھڑاتی ہوئی انگریزی میں مجھے کہا کہ میری قربانی کے بکرے کی کُل قیمت ساڑھے سات سو ڈالر پڑے گی تو میرا ماتھا ٹھنک کر رہ گیا، میں نے چیختے ہوئے اُس سے پوچھا واٹ، اُس نے جواب دیا کہ ”چونکہ بکرے کے گوشت کا وزن 68 پونڈز ہے ، اور وہ بڑا تھا ، اِسلئے قیمت زیادہ ہے” میں نے دِل میں سوچا کہ کس نے تمہیں اتنا بڑا بکرا قربانی کرنے کیلئے کہا تھا، میں نے بلکہ یہ بھی سوچا کہ اِنہی افہام تفہیم کے فقدان نے پاکستانیوں کی بنگالیوں سے ناچاقی کا باعث بن گئی تھی ،مجھے پتا ہے کہ میں اُسے یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ بکرا درمیانہ سائز کا ہونا چاہیے ، کوئی گھوڑا یا بھینسا کے برابر کا نہیں، کیونکہ ایسا کہنے سے وہ ہمارے آرڈر کو لینے سے انکار کر دیتا، نیوجرسی کے ذبیحہ خانہ کے مالک نیویارک کے باسیوں کے بکرے کی قربانی کرتے وقت سائز یا وزن کا خیال نہیں کرتے ، بلکہ قربانی کرنے کے بعد اُس کی قیمت پرچی میں لکھ کر روانہ کر دیتے ہیں جو بڑا بکرا ہوتا ہے وہ نیویارک بھیج دیتے ہیں ، اور جو چھوٹا ہوتا ہے وہ اپنے نیو جرسی والے پڑوسیوں کو دے دیتے ہیں۔ میری یادوں کی برات اِسی نیویارک کے سنہرے دنوں کے تصورات میں گُم ہوگئیں ، جب قربانی کا بکرا سو ڈالر کے اندر مل جاتا تھا اگرچہ اُس وقت بھی یہی بنگالی اُس کے ٹھیکیدار ہوا کرتے تھے،بنگالی حلال میٹ سے میرا واسطہ ہِلسا مچھلی کی وجہ کر پڑگیا ہے،میری بیگم جن کا تعلق کولمبیا سے ہے ، اُنہیں ہِلسا مچھلی بہت پسند ہے ، اور ہر جمعہ کے دِن وہ مجھے اِسے خریدنے کی تاکید کر دیتی ہیں، بیگم کی بات سے کسی کی مت ماری جائے وہی انکاری ہوتا ہے،ہِلسا مچھلی بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ کو بھی بہت پسند ہے ، اِسلئے وہ بھی اپنے وزیراعظم شہباز شریف کی طرح جہاں بھی دورے پر جاتی ہیں تو اپنے ساتھ ایک پیٹی مچھلی کی اپنے میزبان کیلئے ضرور رکھ لیتی ہیں ، وزیراعظم شہباز شریف مچھلی کے بجائے آم کی پیٹی اپنے میزبان کو چمچہ لگانے کیلئے ساتھ لے جاتے ہیں ۔
لیکن آخر بکرا نیویارک کے مقابلے میں نیو جرسی میں کیوں سستا ہے؟ میرے بھتیجے نے مجھے بتایا کہ ورجینیا میں بکرا دونوں جگہوں سے سستا ہے ، مطلب یہ کہ ساڑھے تین سو ڈالر میں قربانی ہوجاتی ہے اگر آپ جنوب کی طرف آگے بڑھتے جائیں تو مزید سستا ہوناشروع ہوجائیگا، ٹیکساس میں دو سو ڈالر میں قربانی ہوجائیگی اور شاید اگر آپ سین انٹونیو کو کراس کرکے میکسیکو میں داخل ہوجائیں تو وہاں کے جنگل میں بکرا چرتا ہوا مفت مل جائیگا، ایک پاکستانی فیملی اِسی طرح کے ایک بکرے کو میکسیکو سے پکڑ کے اپنے ساتھ لارہی تھی ، لیکن بدقسمتی سے وہ فیملی راستے میں کسی جگہ چائے پینے کیلئے رک گئی اور بکرا وین سے کود کر بھاگ گیا. فیملی کے ارکان بھی گاڑی میں بیٹھ کر دوسری طرف بھاگ گئے، فیملی کو علم تھا کہ اگر پولیس کو پتا چل جاتا تو لینی کی دینی پڑجاتی.جانوروں کی اسمگلنگ کا کیس بن جاتا۔بہرکیف اہلیان کراچی جانوروں کی قربانی دینے کیلئے جس طرح کا مقابلہ کر رہے ہیں شاذو نادر ہی اِس کی مثال کسی اور مذہبی تہوار میں دیکھنے میں آتی ہے، ہر پڑوسی دوسرے پڑوسی سے بڑا جانور اپنے گھر کے سامنے باندھنے کیلئے کوشاں رہتا ہے اگر ایک پڑوسی کوئی بکرا باندھ دیتا ہے تو اُس کے دوسرے پڑوسی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اُس سے بڑا بکرا یا گائے لاکر اُس کے سامنے کھڑا کردے، بلکہ ایک شخص نے تو یہ اعلان کردیا کہ قربانی کے جانوروں کو رکھنے کیلئے اُس نے ایک ایئر کنڈیشن کمرہ مخصوص
کردیا ہے، اُس کے پڑوسی نے یہ خواہش ظاہر کردی کہ اُسی کمرے میں اُسے بھی سونے کی اجازت دے
دی جائے، ایک اور تیس مار خاں نے تو یہ دعوی کردیا کہ اُن کا بکرا پی آئی اے کے طیارے سے لاہور سے کراچی آرہا ہے ، اور اُسی طیارے میں وزیراعظم شہباز شریف بھی سوار ہیں، اور بارہا یہ استفسار کر رہے ہیں کہ یہ بھیں بھیں کی آوازیں کہاں سے آرہی ہیں؟
معتبر ذرائع سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ بڑی بڑی گائیں یا بھینسیں جو ہم بکرا منڈی میں دیکھتے ہیںاِسکے خریدار اُن جانوروں کو قربانی کے بعد اُس کا گوشت غریب و غربا ء میں تقسیم کر دیتے ہیں،اُنہیں علم ہے کہ گائے کے گوشت کا بے دریغ استعمال مہلک عارضے کا باعث ہوتا ہے۔
کراچی میں نام نہاد رہنما ہرایک کو سڑکیں صاف و ستھرا رہنے کا درس دے رہے ہیں ، کراچی کے میئر اور اُنکے چمچے ، وزیر بلدیات اوراُنکے لاؤ لشکر ، وزیراعلی اور اُن کی فوج گلیوں کا، شہروں کا دورے پر دورہ کر رہی ہیں ، لیکن کسی کو یہ توفیق نہ ہورہی ہے کہ وہ اپنے آستین کو اوپر چڑھاکر خود بھی صفائی میں حصہ لیںاگر اُن کا مقصد زبانی جمع خرچ کے بجائے تعمیری ہوتا تو اب تک شہر کی ساری آلائشیں صاف ہوگئیں ہوتیں۔
پاکستان میں کوئی ماہر معاشیات جانوروں کا نہیں ، سب کے سب آئی ایم ایف اور قرض کی ادائیگی کے بحران پر اپنی ناکیں گھسیٹتے ہیںیہی وجہ ہے اِس مرتبہ بکرے منڈی میں جانوروں کا رش لگا ہوا ہے اور خریدار گدھے کی سینگ کی طرح بھاگ گئے . بالفاظ دیگر اِس کا نقصان جانوروں کے چھوٹے بیوپاریوں کو اٹھانا پڑرہا ہے، اِسی تناظر کے پیش نظر حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ جانوروں کو پاکستان سے برآمد کرنے کی اجازت دے دیگی، ٹھیک ہے پاکستان عرب امارات، دبئی، شارجہ کو اپنے جانوروں کو فروخت کرنے کا خواہاں ہوگا، لیکن کیا درآمد کندگان ممالک اپنے پرانے سپلائیرز آسٹریلیا کو نظر انداز کرکے پاکستانی جانوروں کو ترجیح دینگے؟

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here