بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کے مابین حالیہ ملاقات دونوں ممالک کے تعلقات کو خوشگوار کرنے کے بجائے مزید تلخ کر دیا ہے، وجہ اِس کی یہ ہے کہ پروفیسر یونس نے ملاقات سے قبل کچھ ایسے بیانات دے دیئے تھے جسے بھارت اپنی میراث سمجھتا تھایا یہ کہیے کہ اُن کی فطرت میں طنزو مزاح اور تلخ و شیرین سے چھبی ہوئی باتیں کرنا طرہ امتیاز ہے کیونکہ اُن کا تعلق ایک اکیڈیمک ماحول سے رہا ہے ، لہٰذا ہر وہ باتیں جو اُنکے ذہن میں آتی ہیں اُس کا اظہار کردیتے ہیں،نریندر مودی جسکا تعلق ایک چائے بیچنے والے خاندان سے ہے، وہ اکیڈیمک کے لفظ سے کوسوں کوسوں دور رہا ہے۔باتیں جو منظر عام پر آئی ہیں اُن میں پروفیسر محمد یونس نے اپنے دورہ چین میں اُسے کئی پیشکش کیں ہیں، اُنہوں نے چینی کمپنیوں کو بنگلہ دیش کی ٹیسٹا ندی کی معاشی ترقی و تزئیں کرنے کی دعوت دی ہے، ماضی میں معزول وزیراعظم شیخ حسینہ بھارت سے اِس کا وعدہ کیا تھا لیکن اُس سے بھی سنگین باتیں وہ یہ ہیں کہ بنگلہ دیش و چین نے ایک میمورنڈم پر دستخط کیا ہے جس کے تحت چین جمنا ندی پر ہائیڈ روجیکل ڈیم بنانے کے امکانات پر ایک جامع منصوبہ پیش کرے گا۔ایک اعلیٰ درجہ کی گول میز کانفرنس میں پروفیسر محمد یونس نے چین سے درخواست کی ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں اپنے پیر جمائے کیونکہ اُس علاقے میں بھارت کے ترقی کے امکانات محدود ہیں، اُنہوں نے اِس کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ شمالی مشرقی بھارت کے اسٹیٹس لینڈ لاکڈ ہیںاِسلئے وہاں ترقی کے امکانات محدود ہیں، واضح رہے کہ بنگلہ دیش سے ملنے والی بھارت کے سات اسٹیٹس جن کی افادیت محدود ہونے کی بناء پر اُنہیں سات بہنیں کہا جاتا ہے ، وہ اسٹیٹ ارونا چل پردیش، میگھا لیہ، میزو رم، مانی پور، ناگا لینڈ اور ٹریپوراہیں جہاں کوئی آبی بندرگاہ نہیں ہے، بھارت میں اٹھائیس میں سے بیس ریاستیں لینڈ لاکڈ ہیں، جہاں ذرائع آمدو رفت کیلئے ڈرائی پوٹ استعمال کیا جاتا ہے، بقول محمد یونس کے بنگلہ دیش اُس علاقے کے سمندر کا گارجین ہے،پروفیسر محمد یونس کے بیان کے منظر عام پر آتے ہی بھارت میں ایک کہرام مچ گیا. اُس کے وزیر خارجہ جے شنکر سے لے کر جوتے پالش کرنے والے سب ہی اِس پر تبصرہ کرنے سے باز نہ رہ سکے. بالفاظ دیگر یہ بھارت کیلئے ایک اعلان جنگ تھا۔اِس سیاق و سباق میں جب وزیراعظم نریندر مودی اور پروفیسر محمد یونس سے با نفس نفیس ملاقات ہوئی تو آخر الذکر کا مزاج اور بھی زیادہ تیز و تند تھا. پروفیسر محمد یونس نے بلا تامل یہ اُگل دیا کہ” بھارت کی پناہ میں مقیم سابق وزیراعظم شیخ حسینہ بنگلہ دیش کے خلاف بھارت کی میڈیا میں اشتعال انگیز بیانات دے رہی ہیں جس سے وہاں کے حالات غیر مستحکم ہورہے ہیں. شیخ حسینہ کا یہ عمل بھارت کی مہمان نوازی کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے ”
” آپ کو تو یہ علم ہی ہے کہ شیخ حسینہ ایک خاتون ہیں اور اُن کی زبان قینچی سے بھی زیادہ تیز چلتی ہے اگر اُنہیں ذرا برابر بھی شعور ہوتا تو اُنہیں آج یہ دِن نہ دیکھنا پڑتا،شیخ حسینہ کو نئی دہلی میں ہلسا مچھلی ، کٹھل اور امرود نہیں مل رہے ہیں ، اِسلئے اُن کا مزاج اور بھی زیادہ گرم رہتا ہے، ویسے بھارت کی حکومت بنگلہ دیش کی کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرتی ” وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ پروفیسر محمد یونس نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی توجہ بنگلہ دیش میںاقوام متحدہ کی جانب سے اُس رپورٹ پر بھی کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں جولائی پندرہ سے 5 اگست 2024 ئ تک سیکیورٹی فورسز اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے انسانی حقوق کی زبردست پائمالی کی تھی،اُنہوں نے مزید کہا کہ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ کم ازکم اُس دوران مظاہروں میں چودہ سو نوجوان ہلاک ہوئے تھے اور جن میں چودہ فیصد بچے تھے،اُنہوں نے کہا کہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز نے انسانیت کے خلاف مثلا”قتل، تشدد اور دوسرے جرائم کا ارتکاب کیاتھا، بنگلہ دیش کے سی اے پروفیسر محمد یونس نے وزیراعظم نریندر مودی کی توجہ بنگلہ دیش اور بھارت کی سرحد پر ہونے والے ماؤرائے عدالت قتل کی جانب بھی کرائی، اُنہوں نے کہا کہ دونوں ممالک اِس ضمن میں متحد ہوکر کام کرسکتے ہیںاور بے ضرر جانوں کے ضیاع کا تدارک کرسکتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جب بھی بنگلہ دیشی شہری بھارت کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو اُنہیں اِسکا بہت زیادہ صدمہ ہوتا ہے، اُس کی ہلاکت ایک پورے خاندان کیلئے مصیبت جان بن جاتی ہے، مودی نے اِس کے جواب میں کہا کہ بھارتی فوج ہمیشہ اپنے دفاع میں گولی چلاتی ہے اور بنگلہ دیشیوں کی ہلاکت بھارتی سرزمین پر وقوع پذیر ہوتی ہے۔ پروفیسر محمد یونس اور نریندر مودی کے مابین گفتگو صرف چالیس منٹ تک ہوئی لیکن اِس کے مہلک اثرات ایک طویل عرصہ تک قائم رہیں گے، بھارت نے فورا”جوابی کاروائی میں بنگلہ دیش کے اُن تین ٹرکوں کو اپنے علاقے سے ہوتے ہوئے بھوٹان جانے سے روک دیا، اِس ٹرانس شپمنٹ میں بنگلہ دیش کی فیکٹریوں کے بنے ہوئے گارمنٹس بھوٹان جارہے تھے، سیاسی مبصروں کی رائے میں بھارت کا یہ اقدام بنگلہ دیش کے سی اے کا چین کو بھارت کے شمالی مشرقی حصے میں داخل ہوکر اپنے مفاد کی حفاظت کرنے کی دعوت دینا تھا، ٹرانس شپمنٹ پر پابندی سے بنگلہ دیش کو بلین آف ڈالرز کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔