واشنگٹن ڈی سی (پاکستان نیوز) امریکیوں کی اکثریت غیرقانونی تارکین کے قیام کی حامی ہے ، فوکس نیوز کے کیے گئے سروے کے مطابق 79 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ تارکین کے مسئلے کو بارڈر ایجنٹس کی تعداد بڑھا کر حل کیاجا سکتا ہے جبکہ اس کیلئے غیرقانونی تارکین کو ملک بدر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، سروے کے دوران 67 فیصد افراد نے رائے دی کہ امریکہ میں موجود غیرقانونی تارکین کو ملک بدر کر دینا چاہئے ، 64 فیصد نے رائے دی کہ غیرقانونی ورکرز کو ملازمت دینے والی کمپنیوں اور اداروں کو بھاری جرمانے کیے جائیں ، 62 فیصد نے غیرقانونی تارکین کو ملازمت کا حق دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان افراد کو بھی دیگر افراد کی طرح زندگی گزارنے کا بھرپور حق ہے ، سروے کے دوران 58 فیصد امریکیوں نے فوج کا استعمال کرتے ہوئے غیرقانونی تارکین کو روکنے کی حمایت کی ، 54فیصد امریکیوں نے کہا کہ تارکین کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مزید بارڈر دیواریں تعمیر کرنے کی ضرورت ہے ،تعلیم یافتہ کاروباری حضرات کی اکثریت غیرقانونی تارکین کی ملازمت کی حامی ہے کیونکہ ان کی وجہ سے ان کی کمپنیاں اور انڈسٹریاں بند نہیں ہوتیں اور کام جاری رہتا ہے ، غیرقانونی تارکین ملازموں کی وجہ سے ان کو کم اجرت میں زیادہ کام ملتا ہے ، جبکہ ان کی وجہ سے ملک میں افرادی قوت کی کمی کا مسئلہ بھی ختم ہو جاتا ہے ،دوسری طرف ملازمت پیشہ امریکیوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ غیرقانونی تارکین کو ملک بدر کیا جائے کیونکہ ان کے ملک میں قیام اور ملازمتوں سے ان کی حق تلفی ہوتی ہے ، ملازمت پیشہ افراد کا موقف ہے کہ وہ ٹیکس دیتے ہیں، تمام سروسز کے پیسے ادا کرتے ہیں جبکہ اس کے باوجود غیرقانونی تارکین کو ان پر فوقیت دی جاتی ہے ، جوکہ ناقابل برداشت عمل ہے۔ دریںاثنا امریکہ میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کے وزیر آلی ہانڈرو میورکیس نے پریس کے لیے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم تارکینِ وطن کی قوم ہیں مگر ہم قانون کی پابند ی کرتے ہیں، ہم تارکینِ وطن کے لیے امریکہ میں داخلے کے قانونی اور منظم راستے مہیا کرنے کے طریقے کو مضبوط بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی ان لوگوں کے لیے نئے ضابطوں کو متعارف کر ارہے ہیں جو امریکہ اور خطے میں اس کے شراکت دروں کے مہیا کردہ طریقہ کار کو استعمال کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔اس بات کا امکان ہے کہ اگر اس منصوبے پر عملدرآمد ہوا تو اسے امیگریشن کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے قانونی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔یاد رہے کہ امریکی سپریم کورٹ نے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے وضع کردہ “مہاجرین کی ملک بدری کے عمل میں مشکلات پیدا کرنے والے” بل سے متعلق اعتراضات کو مسترد کر دیاتھا۔سپریم کورٹ کے بیان کے مطابق، عدالت نے متفقہ طور پر بائیڈن انتظامیہ کی اس ہدایت کو منسوخ کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا جو “تارکین وطن کی ملک بدری کو مزید مشکل بناتی ہے”۔عدالت نے قرار دیا کہ انتظامیہ کی امیگریشن پالیسی درست ہے اور ریاستوں کے پاس اس حوالے سے مقدمات دائر کرنے کے اختیارات نہیں ۔سپریم کورٹ کے جسٹس بریٹ کیوانا کا کہنا تھا کہ امیگریشن پالیسی طے کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔واضح رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے ہر شخص کو حراست میں لے کر ملک بدر کرنے کی پالیسی کا اطلاق کیا تھا۔2021 میں، جب امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالا، تو انہوں نے صرف ان تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا ضابطہ محض دہشت گردی یا پرتشدد جرائم میں ملوث ہونے والوں کے لیے وضع کیا۔ٹیکساس اور لوزیانا کی ریپبلکن ریاستوں نے اس ہدایت کو منسوخ کرنے کیلئے ایک مقدمہ دائر کیا، جس میں الزام لگایا گیا کہ بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیاں امیگریشن قانون سے متصادم ہیں، کہ وہ بہت زیادہ تارکین وطن کے سامنے آئے اور اس طرح انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔