ایک حدیث اور محمدی معاشرہ !!!

0
10

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ اطاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
یاد رکھیں دین اسلام اپنے ماننے والوں کو صرف چند رسومات، روایات اور عبادات کا پابند نہیں بناتا بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات(Complete code of life) ہے خوشی ہو یا غمی عبادت ہو یا ریاضت معیشت ہو یا معاشرت سیاست ہو یا سفارت تجارت ہو یا ملازمت الغرض ہر ہر شخص کی ہر ہر شعبے میں ایسی کامل رہنمائی کرتا ہے اور ایسے روشن اصول فراہم کرتا ہے جن اصولوں کو اپنا کر ہماری دنیا بھی سنور سکتی ہے اور آخرت بھی، آج اُمت زبوں حالی کا شکار ہے آج مسلم معاشرہ بگڑ چکا ہے کچھ تو وجہ ہوگی جی ہاں وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے ہماری قرآن وسنت سے دوری قرآن کریم کی ایک ایک آیت ہدایت کا سرچشمہ ہے ایک ایک آیت نور ہے ایک ایک آیت رحمت ہے لیکن پھر ہوایوں کہ !
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہوکر
اور تم خوار ہونے تارک قرآن ہو کر
اسی طرح نبیۖ کی سیرت مبارکہ اور آپکی پاکیزہ تعلیمات میں ہمارے دکھوں کا مداوا تھا لیکن یہاں تو کارواں کے دل سے احساس ضیاع جاتا رہا آئیے بخاری ومسلم کی ایک متفق علیہ رویت ملاحظہ فرمائیں اور پھر اندازہ کیجیئے کہ ایک حدیث پر عمل سے ایک مثالی معاشرہ کیسے بن سکتا ہے۔حضور اکرمۖ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ابن آدم سے فرمائے گا اے ابن آدم میں بیمار تھا تو نے میری عبادت نہ کی بندہ عرض کرے گا اے پروردگار عالم میں شہری عیادت کیسے کرتا تو خود عالمین کا پالنے والا ہے تو اللہ فرمائے گا میرے فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عبادت نہ کی اگر تو اس کی عبادت کرتا تو اس کے پاس مجھے پاتا اللہ اکبر ہم نے رب کو کہاں کہاں نہ تلاش کیا اور رب فرما رہا ہے اگر تو مریض کی عیادت کرتا تو مجھے پا لیتا عزیزان دیکھیئے ہسپتالوں میں بڑے ان مریضوں کو جنکی آنکھیں کسی مسیحا کی منتظر ہیں اپنے خاندان میں دیکھیں وہ لوگ جو دائمی امراض میں مبتلا ہیں اور اگر آپ کے گھر میں کوئی مریض ہے تو فرائض کی بجا آوری کے بعد اس کی خدمت ہی سب سے بڑا وظیفہ ہے۔ اسی طرح اللہ فرمائے گا اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے کھانا نہیں دیا بندہ عرض کرے گا۔ اے رب تو کائنات کا رب ہے میں تجھے کھانا کیسے کھلاتا اللہ فرمائے گا۔ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا اور تو نے نہیں دیا اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو اس کا اجر میں تجھے عطا کرتا اسی طرح اللہ فرمائے گا میرے بندے میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے پانی نہیں دیا بندہ عرض کرے یارب تو رب العالمین ہے کیسے پانی پلاتا اللہ فرمائے گا میرے فلاں بندے نے پانی مانگا اور تو نے پانی نہیں دیا اگر اس کو پانی پلاتا تو اس کا اجر مجھ سے پاتا اب آپ سے سوال کرتا ہوں اگر ہم صرف اس ایک حدیث پر عمل کریں تو معاشرے میں نہ کوئی مریض لاچار رہے نہ کوئی غریب بوکھا رہے اور نہ ہی کوئی صاف پانی کی بوند کو ترسے اس حدیث کو بار بار پڑھیں اور پھر نتیجہ اخذ کریں اگر رحمت دو عالمۖ کے ایک ارشاد پر عمل سے ہمارا معاشرہ مصطفوی معاشرہ بن سکتا ہے تو پھر پورے اسلام کے نفاذ سے ملک وملت کی حالت کیونکر نہیں بدلے گی۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی مسائل ہی ہیں
راہ دکھلائیں کسے رہ رو منزل ہی نہیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here