ملازمین رُوپوش،امریکہ لیبر بحران کا شکار

0
28

واشنگٹن (پاکستان نیوز) امریکہ بھر میں غیرقانونی اور قانونی تارکین کے خلاف شکنجہ کسنے پر امیگرنٹ افراد کی اکثریت روپوش ہو گئی ہے ، کئی افراد سرحدی علاقوں کی طرف منتقل ہو گئے ہیں جس سے اندرون شہر کنسٹرکشن ،گراسری سٹور اور دیگر شعبوں سے وابستہ کاروباری حضرات کے پاس کوئی بندہ کام کے لیے دستیاب نہیں ہے، غیرقانونی تارکین کا سب سے بڑا فائدہ کاروباری برادری اٹھا رہی تھی کیونکہ ان کو ملازمین کو کم قیمت ادا کرنا پڑ رہی تھی ،غیرقانونی تارکین کی بڑی تعداد کم تنخواہ پر کام کرنے کے لیے تیار ہو جاتی تھی ۔ امریکہ میں مقیم سفید فام اور سیاہ فام کمیونٹی پبلک سروس کاموں کے قریب بھی نہیں بھٹکتی ہے اور نہ انہیں ایسی ملازمتوں کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے سروس سٹیشنز، گیس سٹیشنز ، کنسٹرکشن ، ریسٹورنٹس، ڈلیوری سروسز، گراسری سٹورز، ہائپر مارکیٹس، شاپنگ مالز میں ملازمین کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے اور کاروباری افراد اس نئے بحران سے نمٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں ہیں ۔کالجز ، یونیورسٹیز میں طلبا کی حاضری بھی معمول سے کم ہے کیونکہ تعلیمی اداروں میں غیرقانونی طلبا کی بھرمار تھی جوکہ آپریشن شروع ہونے کے بعد روپوش ہوگئی ہے۔ امیگریشن نے غیرقانونی انڈین شہریوں کے تین جہاز بھارت بھیجے ہیں جبکہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد بھی امریکہ سے بے دخل ہوئی ہے۔آنے والے چند ماہ میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ میں معاشی سست روی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ یہ سست روی ایسے وقت میں آرہی ہے ، کسی بھی ملک میں مرکزی بینک شرح سود اس وقت بڑھا دیتا ہے جب وہاں مہنگائی بڑھ جائے ۔یعنی دوسرے الفاظ میں مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے شرح سود بڑھائی جاتی ہے تاکہ لوگ کم خرچ کریں اور یوں طلب اور رسد کا توازن کسی حد تک برقرار رہے۔ٹرمپ دور حکومت کی سخت پالیسیوں نے امیگریشن میں مزید پیچدگیاں پیدا کی ہیں ، اب امیگریشن ایجنٹس غیرقانونی کے ساتھ قانونی تارکین کو بھی حراست میں لے رہے ہیں جس سے طلبا، ملازمین کے ساتھ عام شہریوں میں ڈیپورٹیشن کا خوف پروان چڑھ رہا ہے ، حال ہی میں امیگریشن ایجنٹس نے کولمبیا یونیورسٹی کے فلسطینی نژاد طالب علم کو حراست میں لے لیا جوکہ گرین کارڈ ہولڈر تھا اور اس کے پاس تمام دستاویزات مکمل تھے ، ایسے ہی واقعات شہریوں میں خوف پیدا کر رہے ہیں جس سے قانونی اور غیرقانونی تارکین کی اکثریت روپوش ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here