گردش تقدیر سے ہیں گردش پیمانہ ہم !!!

0
11

ہر چار سال بعد، ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں، عام انتخابات کے ذریعے، منتقلی اقتدار کے مشکل مراحل کے بعد ایک نئی حکومت وجود میں آتی ہے۔ عام طور پر حکومت کی یہ تبدیلی سسٹم کے مروجہ اصولوں کے مطابق آتی ہے، اس لئے کوئی بڑا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا البتہ اس کے دو سالوں والی حکومتی تبدیلیاں، انتہائی مشکل ثابت ہوئیں۔ آجکل بھی صدر ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے سسٹم بالکل خوش نہیں ہے۔ روایتی سیاست، صدر ٹرمپ جیسے خطر پسند کو اپنے لئے بیحد خطرناک سمجھتے ہوئے، مزاحمت کررہی ہے۔ مقتدرہ کے دو اہم ستون، ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس اور میڈیا انڈسٹریل کمپلیکس، سب سے زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ طویل مدت سے سسٹم پر قابض اشرافیہ کو لگ رہا ہے کہ کچھ بنیادی تبدیلیوں کے بغیر آگے کا سفر کٹھن ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان تبدیلیوں کے سامنے وہ کس حد تک مزاحمت کر سکتی ہے اور اپنے اقتدار پر کتنی گرفت قائم رکھ سکتی ہے۔
اقوامِ عالم کی تاریخ سے یہی پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر کسی بھی ریاست میں پرامن انتقالِ اقتدار کوئی آسان مرحلہ ثابت نہیں ہوتا۔ فوجی آمریت ہو یا بادشاہت، خلافت ہو یا ملوکیت، پارلیمانی حکومت ہو یا صدارتی نظام، قبائلی سرداری ہو یا کوئی امارت؛ جانشین کا انتخاب ہو یا اس کا پر امن تقرر، زیادہ تر ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ موجودہ مغربی جمہوریت بھی بڑی حد تک اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نہیں نکال سکی۔ ریاست کی اصل مقتدرہ اور منتخب حکومتوں میں بڑے گہرے اختلافات پائے جاتے رہے ہیں۔ آفتاب حسین کے اس شعر سے اس کیفیت کا کچھ اندازہ ہوتا ہے۔
اٹھ کے جا بیٹھا وہی اشرافیہ کی گود میں
ہم غریبوں نے جسے سمجھا عوامی آدمی
اس مرتبہ، صدر ٹرمپ اپنی پچھلی حکومت کے تجربہ کے سبب، تبدیلی اقتدار کے سامنے آنے والی مزاحمت سے زیادہ بہتر انداز سے نمٹ لیں گے لیکن زیادہ بڑا مسئلہ چار سال بعد درپیش ہوگا جب تبدیلی اقتدار نہایت کٹھن ہوجائے گی۔
سب سے زیادہ آسان انتقالِ اقتدار، ہمارے آبائی ملک پاکستان میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں تو قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک فوجی جرنیلوں کی مقتدرہ نے کسی کو اقتدار منتقل کیا ہی نہیں۔ اس جنتا سے لڑتے ہوئے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، کئی سیاسی لیڈر قتل ہو گئے، ہزاروں لوگوں نے اپنے جسم پر کوڑے برداشت کئے۔ جالب جیسے شعرا قیدو بند کی صعوبتیں جھیلتے رہے، کراچی جیسا روشنیوں کا شہر تاریکیوں میں ڈوب گیا، بلوچستان جیسے علاقے کی بیش قیمت معدنیات بھی اس کے مکینوں کی غربت دور نہ کر سکیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے، پختونوں کی کئی نسلیں رزقِ خاک ہو گئیں، پاکستانی عوام غربت کے اعشاریوں سے نیچے نیچے ہی رہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بنیادی انسانی حقوق کی ضامن عدالتوں نے بھی اپنا دین ایمان بیچ کر سلیوٹ کرنا زیادہ بہتر سمجھ لیا۔ امید کی ایک کرن کے طور پر، مقتدرہ کے خلاف پاکستانی عوام کا احتجاج تو جاری ہے اور شکیل بدایونی کے اس شعر نے حکومت کو پریشان بھی بہت کر رکھا ہے۔
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
اس سب کے باوجود بھی پچھتر سالہ اقتدار میں تبدیلی لانا کو ئی آسان کام نہیں رہا۔ دشمنوں کی مکاریاں اور اپنوں کی غداریاں، آزادی کی اس جدوجہد کو مزید مشکل بنا رہی ہیں۔ صابر ظفر کے بقول!
عجب اک بے یقینی کی فضا ہے
یہاں ہونا نہ ہونا ایک سا ہے
بہرحال تبدیلء اقتدار کا عمل نہ کبھی آسان رہا ہے اور نہ کبھی آسان رہے گا۔ اقتدار کی ہوس میں، سگے بھائی بھی آپس میں لڑتے رہیں گے اور محلاتی سازشیں بھی ختم نہیں ہوں گی۔ ریاستی جبر بھی جاری رہے گا اور ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد بھی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اصل کامیابی اور فلاح وہی لوگ پائیں گے جو قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گزاریں گے اور کبھی کسی مظلوم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ آخر میں جالب کے یہ اشعار حاضرِ خدمت ہیں۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتا
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زنداں تو نہیں تھا

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here