ڈوبنے کی پُراسرار !!!

0
49
حیدر علی
حیدر علی

جی ہاں حضور! نیویارک میں سمر پورے آب وتاب سے جلوہ افروز ہے، ساحل سمندر پر عام دنوں میں شائقین آب کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، اختتام ہفتے کی بات تو بھول جائیں ، ملین تک پہنچ جاتی ہے ، بلکہ میں تو چھٹی کے دِ ن جانے سے گریز کرتاہوں کیونکہ میرے فیورٹ برائیٹن بِیچ پر قدم رکھنے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی ہے، خطرہ ہوتا ہے کہ قدم کہیں کسی کی کولہے سے لمس نہ ہوجائے اور اپنے جسم کی نمائش کرنے والی الھڑ حسینہ شوہر یا بوائے فرینڈ کو للکارتے ہو ئے یہ نہ کہہ دے ” دیکھا تم نے اِس نے میرے جسم کے اہم اعضاء کو دبا دیا ہے” شوہر بیچارا ” جاؤ جاؤ آگے بڑھو کہہ کر معاملہ کو دبا دیتا ہے، سمر کا نشہ ایسا لوگوں پر طاری ہوا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی بھی بازی لگادیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ہفتے کے صرف دو دِن میں نیویارک کے تین لڑکے ڈوب کر ہلاک ہوگئے ، جن میں 2 کونی آئی لینڈ اور ایک فارروک وے کی بیچ پر شدید گرمی میں ٹھنڈا ہونے گئے تھے، لوگوں کی اکثریت کی بِیچ پر جانے کی وجہ ہی صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ شدید گرمی سے چھٹکارا حاصل کریں اور انجوائے کرنے کی یہی خواہش خطرے کا باعث بن جاتی ہے،کسی ڈوبتے ہوئے شخص کو بچانے کیلئے بغیر کسی لاجسٹک سپورٹ کے تین یا چار تیراکیوں کی ضرورت پڑتی ہے ، اور ایک بچے کو صرف ایک تیراکی بچا سکتی ہے، افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستانی خاندان کے کسی باپ کو تیرنا آتا ہے نہ ہی بچے کو ، امریکا میں اتنی سہولت کے باوجود اپنے بچوں کو تیرنا نہ سکھانا والدین کیلئے غفلت کی ایک انتہا ہے، بنگلہ دیش کی حکومت نے سرکاری طور پر بچوں کو تیرنا سکھانے کی ایک مہم چلائی ہے جسکا نعرہ ہے کہ ” ہر بچے کو تیرنا سیکھنا چاہئے” اے کاش پاکستان کی حکومت بھی ایسا کرتی، گزشتہ ہفتے بے بیلون ، لانگ آئی لینڈ کے ایک شخص نے جفاکشی اور جدوجہد کی ایک مثال قائم کردی ہے، وہ گہرے سمندر میں تن و تنہا پانچ گھنٹے تک اپنی جان بچانے کیلئے تیرتا رہا، تفصیل اِس کی کچھ یوں ہے کہ مذکورہ شخص صبح پانچ بجے سیدار بیچ کے ساحل سے لانگ آئلینڈ کے سمندر میں کود گیا اور تیرنا شروع کردیا، شومئی قسمت کہ وہ رِپ کرنٹ کی زد میں آگیا جو اُسے بہا کر گہرے سمندر میں لیتی چلی گئی . وہ لہروں کے مخالف سمت تیرنے کی کوشش کی لیکن وہ رائیگاں گئی.وہ بغیر کسی تیراکی ڈیوائس کے پانچ گھنٹے تک تیرتا رہا، اُسے ایک ٹوٹی ہوئی فِشنگ راڈ مل گئی جس میں وہ اپنی ٹی شرٹ باندھ دی تاکہ کوئی گزرتی ہوئی بوٹ یا جہاز کی نظر اُس پر پڑجائے اور وہ اُسے ریسکیو کر لے، اُس کی عقلمندی کام آئی اور پانچ گھنٹے بعد جہاں وہ سمندر میں کودا تھا وہاں سے ڈھائی میل دور کے فاصلے پر ایک گزرنے والی بوٹ کے انسان دوست سواری 63 سالہ شخص کے سگنل کو شناخت کرلیا اور اُسے کھینچ کر اپنے بوٹ پر لے آئے، اُنہوں نے فورا”پولیس کی مدد کیلئے اپنے ریڈیو سے کال کی جہاں کوسٹ گارڈ کے میڈیکس پہنچ گئے اور اُسے ابتدائی طبی امداد پہنچائی، شخص جو کھڑے ہونے کے ناقابل اور ہائپرتھورمیا کا شکار ہو گیا تھا اُسے لانگ آئی لینڈ کے ایک قریبی ہسپتال پہنچادیاگیا،اِدھر گولڈ مین ساکھ کے سینئر انیلسٹ جان کاسٹک کی بروکلین ندی میں بہتی ہوئی لاش اُس کے دوستوں اور رشتہ داروں کے مابین ایک ہیجان پیدا کردیا ہے، سارا کوسٹیکا جو متوفی کی دوست تھی اورجس نے اُس کی تلاش میں دو دِن صرف کیا تھا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اِس کے پیچھے کوئی پراسرار سازش پنہاں ہوسکتی ہے، جب لاش دریافت ہوئی تو اُس وقت جان کاسٹک کا جسم قمیض یا بنیائین سے ندارد تھا،نیو ٹاؤن بروکلین کی ندی جو کوئینز کو بروکلین سے ملاتی ہے وہاں سے ایک دوسرے 27 سالہ سائیکلوجسٹ کارل کلیمنٹی کی لاش بھی گذشتہ جون کے ماہ میں دستیاب ہوئی تھی، کارل جب پہلی مرتبہ ندی کے کنارے پہنچا تھا تو وہ نشہ میں دھت تھا، اِسلئے لوگوں نے اُسے ندی کے قریب جانے سے روک دیا تھالیکن دوسری مرتبہ وہ ندی میں مردہ پایا گیا،پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں اشخاض حادثاتی طور پر ہلاک ہوئے ہیں، آیا وہ شراب یا ڈرگ کے شدید نشہ میں آکر گندے اور زہریلی ندی میں جاکر کود گئے تھے یا اُنہیںرات کے اندھیرے میں صنعتی علاقے میں واقع ندی نظر نہیں آئی تھی لیکن ماہرین کی رائے میں یہ نتیجہ اخذ کرنا قبل ازوقت ہے، یکے بعد دیگر لاشوں کا برآمد ہونا کوئی منظم شازش بھی ہوسکتی ہے۔
دنیا کا موسم تبدیل ہورہا ہے لیکن نیویارک کا نہیں یہاں تو سالوں سال بارشیں ہوتیں رہیں اور صرف جولائی کے اواخر میں چند ویک اینڈز ایسے آئے جس میں آپ بیچ پر جاسکے تھے لیکن اِس کے بر مخالف سارا امریکا گرمی سے تپ رہا ہے، کیلیفورنیا میں درجہ حرارت 126 ڈگری تک پہنچ گیا جو وہاں پر پڑنے والی گرمی کے سارے سابقہ ریکارڈ کو توڑ دیا ہے،ساؤتھ ویسٹ میں ہائیکنگ کیلئے جانے والے افراد اِس گرمی کا سب سے زیادہ شکار ہوئے اور درجنوں کی تعداد میں موت کی نیند سوگئے تاہم گرمی صرف امریکا میں نہیں پڑ رہی ہے بلکہ اِس کی زد میں ایشیائی ممالک بھی ہیں، گزشتہ منگل کے دِن ایران کے شہر اہواز میں درجہ حرارت 122 ڈگری فارن ہائیٹ تک پہنچ گیا تھاجس کی وجہ کر ایرانی حکومت نے دو دِن تک عام تعطیل کا اعلان کرنے پر مجبور ہوگئی ،سکول و مدرسہ کے طلبا نے خوشیاں منائیں اور اﷲ تعالیٰ سے دُعا کی کہ اِسی طرح کی اور بھی گرمی پڑتی رہے،شاید آپ کو علم نہ ہوگا کہ 80 ڈگری اور 122
ڈگری کی گرمی میں کیا فرق ہوتا ہے، 100ڈگری کی گرمی میں بِیچ پر ننگے پیر چلنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here