وزیر مملکت برائے پٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے روس سے تیل نہ لینے کے بیان کی محتاط انداز میں تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزارت خارجہ کو جلد اس سلسلے میں تفصیلات فراہم کر دی جائیں گی۔ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ روس پاکستان کو رعایتی قیمت پر خام تیل ڈیزل اور پٹرول فراہم کرے گا جبکہ آذر بائیجان سستی ایل این جی دے گا۔انہوں نے بتایا کہ تیل کے حصول کی خاطر متحدہ عرب امارات سے بھی بات چیت جاری ہے۔دوسری طرف روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے ماسکو میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان پٹرولیم مصنوعات کے سودے پر بات ہو رہی ہے۔روسی ترجمان نے کراچی تا لاہور پائپ لائن مکمل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ دوطرفہ وضاحتوں کے بعد یہ واضح ہوا ہے کہ پاکستان اور روس سستے تیل کے لئے مذاکرات کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری حکمران مسلم لیگ ن کی سب سے بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے وزیر خارجہ ہیں۔ان کی جانب سے روسی تیل نہ خریدنے کا بیان حکومت کی فیصلہ سازی کی صلاحیت اور نظام پر سوال ہے۔وزیر خارجہ اور وزیر مملکت برائے خارجہ امور میں سے کوئی ایک کابینہ کے اجلاس میں ضرور شامل رہا ہے۔روس سے پٹرولیم مصنوعات کی خریداری موجودہ حالات میں معیشت اور خارجہ تعلقات کے حوالے سے بہت اہم معاملہ ہے۔وزیر خارجہ اگر روس سے تیل نہ لینے کی بات کر رہے ہیں تو کیا اسے ان کی لاعلمی قرار دے کر نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟ وطن عزیز اس وقت بدترین معاشی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزرا اور اتحادی عدم اطمینان کا شکار نظر آتے ہیں۔پی ڈی ایم حکومت نے پہلے دو ماہ اس بات پر گزار لئے کہ عمران خان نے تیل کی قیمتوں کو مصنوعی طریقے سے روک کر جو خسارہ کھڑا کیا اس سے نمٹنے کے لئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔یہ سخت فیصلے یوں سامنے آئے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 170روپے فی لٹر سے بڑھ کر 240روپے فی لٹر تک جا پہنچیں۔اسی طرح روپے کے مقابل ڈالر کی قیمت بڑھا کر کیا گیا۔بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط نہ مانیں تو ملک مشکل کا شکار ہو سکتا ہے۔درپیش صورتحال کو دیکھ کر حکومت سے پوچھا جا سکتا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط ماننے کے باوجود معاشی بحران تیزی سے سنگین تر کیوں ہوتا جا رہا ہے۔کابینہ کے اراکین وزیر اعظم اور اپنے رفقا سے سوال کر رہے ہیں کہ حالات بہتر کیوں نہیں ہو رہے۔مسلم لیگ ن سخت فیصلوں اور ناکامی کا الزام عائد کر کے مفتاح اسماعیل کو رخصت کر چکی ہے لندن میں بیٹھے اسحق ڈار کو معلوم نہیں کس طرح قانونی الجھنوں سے بچا کر وزیر خزانہ بنایا گیا تاہم مقصد یہی تھا کہ وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مستحکم کریں اور ماضی کی طرح کوئی ایسی ہنر مندی دکھائیں کہ معیشت پائوں پر کھڑی ہو جائے۔تاحال ایسی کوئی امید پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ پی ڈی ایم حکومت کے دامن پر معاشی بدحالی کا داغ گہرا ہو رہا ہے۔وزارت خزانہ چونکہ مسلم لیگ ن کے پاس ہے اس لئے معیشت کی خرابی کا سارا ملبہ آئندہ انتخابات میں صرف مسلم لیگ ن پر گرے گا۔ اگلے انتخابات چند ماہ کے بعد ہوں یا پھر آئندہ برس یہ بات طے ہے کہ حکومت کی موجودہ کارکردگی یہی رہی تو ووٹروں کا ردعمل خوشگوار نہیں ہو گا۔حکومت نے کچھ فیصلے شائد گزشتہ حکومت کی ضدمیں ایسے کئے ہیں جنہوں نے ملک میں معاشی بحران کی شدت بڑھا دی ہے۔کورونا اور اس کے بعد بھی فیصل آباد کی ٹیکسٹائل کی صنعت نے ریکارڈ منافع کمایا۔پاکستان نے پچھلے تیس برسوں کے دوران ریکارڈ ٹیکسٹائل برآمدات پی ٹی آئی دور میں کیں۔پی ٹی آئی حکومت نے رئیل سٹیٹ اور تعمیراتی شعبے کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی اوور سیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر کے ضمن میں ترغیب دی۔کسانوں کے لئے خصوصی پیکیج فراہم کیا۔ان رعایتوں کی وجہ سے لوگوں کو روزگار مل رہا تھا۔برآمدات میں اضافہ ہو رہا تھا۔نئی سرمایہ کاری آ رہی تھی قرضوں کی ادائیگی ممکن ہو رہی تھی۔پی ڈی ایم کے سات ماہ کا اقتدار مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں رہا۔کسان کارخانہ دار مزدور اور ملازمت پیشہ طبقات پریشان ہیں۔بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔عالمی ادارے اور دوست ممالک یقینا پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچا رہے ہیں لیکن بچائو کی اس مہم میں حکومت کا اپنا حصہ کتنا ہے؟ وفاقی کابینہ کے اراکین کی تعداد 75ہو چکی ہے۔حکومت اسمبلیاں ٹوٹنے کی شکل میں سیاسی بساط پر فوائد اکٹھے کرنے کے لئے منصوبے ترتیب دے رہی ہے۔ہر اتحادی کو منافع بخش مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں۔ حکومتی اتحاد اپنے خلاف مقدمات ختم کرانے کے بعد اب اگلے انتخابات کا انتظام کرنے میں مصروف ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان محاذ آرائی نے کشیدگی انتہا تک پہنچا دی ہے۔وزیر خارجہ مسلسل ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں لیکن افغانستان کے معاملات خراب ہو رہے ہیں عرب دوست پاکستان کی مشکلات سے الگ تھلگ ہوئے کھڑے ہیں اور روس پاکستان تیل خریداری معاملے پر وزیر خارجہ اپنی حکومت کے الٹ بات کر رہے ہیں یہ صورتحال حکومتی صفوں میں ہم آہنگی نہ ہونے اور قومی امور پر واضح مشاورت نہ ہونے کی علامت ہے۔
٭٭٭