بنگال کے بعد بلوچستان!!!

0
48

16دسمبر1971کا سانحہ ناقابل برداشت اور فرمواش ہے جس دن بانی پاکستان بنگالی قوم ملک سے الگ ہوئی ملک دولخت ہوا، لاکھوں بنگالی مارے گئے ہزاروں خواتین کی عزتیں لوٹی گئیں جس کو پاکستان کا بہت بڑا سانحہ نہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔علاوہ ازیں راقم الحروف کواچھی طرح یاد ہے کہ مجھے اسلامیہ کالج کراچی طلبا یونین کے صدر کی حیثیت سے بنگال میں فوجی آپریشن کے خلاف احتجاج کرنے پر جیل یاتری ملی تتھی جب جیل سے باہر آئے تو پاکستان ٹوٹ چکا تھا۔ تاہم بنگال میں مارچ1971کو فوجی آپریشن آخرکار رنگ لایا کہ جس میں فوجی حکمران جنرل یحیٰی خان نے اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو اقتدار دینے سے انکار کردیا جن کے نائب جنرل اے کے نیازی نے بنگال میں قتل عام کیا جس کے صلے میں پاکستانی فوج کو بری طرح شکست ملی۔ دنیا کی پہلی واحد مسلح فوج نے بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ 93ہزار فوجی اور سویلین جنگی قیدی بنا لئے گئے جس میں جنرل باجوہ نے 93ہزار جنگی قیدیوں میں سے34ہزار فوجی اہلکار بنانے پر فخر کیا جس کے بعد سوال اٹھتا ہے کہ باقی59ہزار سویلین کو کس قانون کے تحت جنگی قیدی بنایا گیا تھا یا پھر بھارتی فوج نے سویلین اور فوجی اہلکاروں کی بنگالی مکتی باہنی سے بچایا تھا جس کے لئے جنگی قیدیوں کو بھارت تک پہنچنے تک اسلحہ فراہم کیا گیا جن سے واپس نہ لیا گیا تھا دوسرا سوال ہے کہ آخرکار کیا وجوہات ہیں کہ پاکستانی فوجی حکمرانوں نے34ہزار کی بجائے بڑی تعداد میں فوج کیوں نہ بھیجی جو مغربی پاکستان کی سرحد پر لگائی ہوئی تھی۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ جنگی قیدیوں پر جنگی جرائم کا مقدمہ کیوں نہ بنایا گیا تھا جبکہ بھارت بڑی آسانی بنگلہ دیش کے جنگی جرائم میں ملوث فوجی اہلکاروں کو حوالے کردیتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کے بنگال الگ کرنا ایک سازش تھی جوپاکستان ہندوستان اور امریکہ کے درمیان طے پائی تھی جس کی حفاظت امریکی بحری بیڑہ کر رہا تھا۔ بہرکیف بنگال کے بعد بلوچستان میں پانچویں فوجی آپریشن جاری ہے۔ جس کا آغاز1948کو ہوا تھا جب بلوچستان کی آزاد ریاستوں پر حملہ کرکے پاکستان کی فوج نے پاکستان میں ضم کرلیا تھا جس میں جسٹس قاضی فائز عیٰسی کے والد قاضی عیٰسی اور نواب اکبر بگٹی کو اپنا اتحادی بنایا گیا جن کو بلوچستان کو پاکستان میں ضم کرنے حملے میں اکبر بگٹی کو احتجاج کرنے پر جنرل مشرف نے ان کی پناہ گاہ پہاڑ کے نیچے دفن کردیا جبکہ قاضی عیٰسی کی اولاد کو مسلسل رسوا کیا جارہا ہے۔ جبکہ دونوں اشخاص نے بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ دوسرا فوجی آپریشن جنرل ایوب خان کے دور آمریت میں ہوا۔ جس میں سینکڑوں بلوچ عوام مار دیئے گئے۔ تیسرا فوجی آپریشن جنرل یحیٰی خان کے دور میں ہوا بلوچوں کی ہر دلعزیز پارٹی نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کر دی گئی۔ چوتھا فوجی آپریشن بھٹو دور میں ہوا جب بلوچ عوام پہاڑوں کے اوپر چڑھ کر پناہ لینے پر مجبور ہوئے جس میں صوبہ سرحد (پختوانخواہ) اور بلوچستان کی منتخب اکثریتی پارٹی نیشنل عوامی پارٹی پر تیسری مرتبہ پابندی عائد کردی گئی پانچویں فوجی آپریشن کا جنرل مشرف کے دور میں آغاز ہوا جواب تک جاری ہے جس میں ایک معصوم لیڈی ڈاکٹر شازیہ کی فوجی کیپٹن کے ہاتھوں عزت لٹنے پر اکبر بگٹی نے احتجاج کیا تھا جن کو ان کی پناہ گاہ پہاڑ میں زندہ درگور کردیا گیاتھا۔ جس کے بعد بلوچستان میں جاری وساری بے چینیاں اور کشیدگیوں میں اضافہ ہوا کہ آج بنگال کی طرح بلوچستان میں بھی علیحدگی پسند تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں حالانکہ ماضی میں بلوچ قیادت اکبر بگٹی، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل وغیرہ نے ٹوٹے پھوٹے پاکستان کے آئین پر دستخط کرکے بدحال اور شکست خوردہ پاکستان کو متحد فیڈریشن بنایا تھا اگر اس وقت ولی خان اور غوث بخش بزنجو بھی شیخ مجیب کی طرح پاکستان سے انکار کردیتے توآج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا بہرحال بلوچستان میں فوجی آپریشن فوری طور پر بند کرکے ناراض بلوچ عوام کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔
بلوچستان کے قدرتی وسائل گیس، ریکوڈک کا سونا چاندی ہرے جواہرات صرف اور صرف بلوچ عوام کے حوالے کیئے جائیں جس کے ممالک میں لہذا ایسے موقع پر موجودہ گورکن حکومت نے ریکوڈک کی1000بلین کی دولت کا اسی بلیک میلر کمپنی بیرک گولڈ کو دس بلین میں ٹھیک دے کر بلوچستان کے ساتھ نہایت زیادتی کی ہے جس کے بڑے دورس نتائج برآمد ہونگے جو آئین کی اٹھارویں ترمیم کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ کہ بلوچستان کی گیس کے بعد ریکوڈک کی معدنی دولت کو لوٹا جارہا ہے جس کے سامنے بلوچ عوام بے بس نظر آرہی ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here