جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا !!!

0
48

شاید ارسطو یا اسی قسم کے کسی مشہورِ زمانہ مفکر نے کیا خوب کہا تھا کہ انسان ایک معاشرتی جانور ہے۔ یعنی انسان کو اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے ہر صورت، اجتماعیت کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ اقبال نے اپنے ایک مشہور شعر میں شاید اسی حقیقت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ!
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
امریکہ آنے والے مسلمانوں نے بھی اپنے آبائی ممالک سے یہاں آکر بسنے کے بعد، اجتماعیت قائم کرنے کے کئی طریقے نکالے۔ کمیونٹی سنٹرز، مساجد اور تعلیمی ادارے بنانے کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر میل ملاپ کیلئے سالانہ کنونشنز کا بھی انعقاد شروع ہوا۔ اسنا (ISNA)، اکنا (ICNA)، مونا (MUNA)، وارث دین محمد (WDM Community) اور ماس (MAS) جیسی تنظیموں نے آغاز تو بہت چھوٹے چھوٹے اجتماعات سے کیا لیکن بتدریج وہ امریکہ کے کئی بڑے کنونشن سنٹرز کی گنجائش سے بھی آگے بڑھ گئے۔ ان کنونشنز کی مرکزی کشش تو بڑے بڑے مقررین ہی رہے ہیں، جن کو بالمشافہ سننے کیلئے عوام کی بڑی تعداد شرکت کیلئے آتی رہتی ہے لیکن کچھ عرصہ بعد، فیملی ری یونین، انٹرنینمنٹ، رشتے طے کروانے کی سروس، بڑے بڑے بازار اور حلال کھانوں کی لذت بھی بہت سارے شرکا کی شرکت کا سبب بنی۔
اس ہفتے ہم نے، شکاگو میں، ٹرکش فیسٹیول کو کنونشن کے اسٹائل میں منعقد کرنے کی داغ بیل ڈالی۔ اس طرح کی پہلی کوشش ہونے کی وجہ سے ہماری توقع تو پانچ ہزار شرکا تک کی تھی لیکن دس ہزار سے بھی زیادہ افراد کنونشن سنٹر پہنچ گئے۔ سارے انتظامات چونکہ زکوا فانڈیشن کی مختصر سی ٹیم نے کرنے تھے اس لئیے پہلے تو کچھ گھبراہٹ ہوئی لیکن پھر پچھلے پچیس تیس سالوں کا تجربہ کام آیا اور الحمداللہ، اللہ تعالی کی خاص مدد سے سارے مسائل بہت اچھے انداز میں حل ہو گئے۔ ارتغرل ڈرامے کے دو مشہور کردار بھی یہاں موجود رہے اور انہوں نے غزہ کیلئے فنڈز جمع کرنے میں مدد کی۔ عثمانی دور کے فوجی بینڈ مہتر نے بھی اپنی پریڈ کے ذریعے ایک سماں باندھے رکھا۔ لوگوں کی توجہ کا مرکز ٹرکش کھانے بنانے کے اسٹیج شو بھی رہے، جن میں ترکیہ سے آئے ہوئے مشہور شیفز نے لوگوں کے سامنے کھانے بنائے اور کھلائے۔ ترکیہ سے آئے ہوئے Crafts اور Art کے بہترین دستکاروں نے بھی اپنے اسٹال لگائے اور شرکا کے سامنے کچھ اشیا بنا کر داد وصول کی۔ ارتغرل کے دور کے اناطولیہ کا خیمہ بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس ساری قدیم ثقافت کے ساتھ جدید ترکیہ کی ٹیکنالوجی کے اسٹال بھی موجود تھے۔ ٹرکش ائیر لائن اور اناطولیہ نیوز ایجنسی، اس فیسٹیول کنونشن کے اہم اسپانسرز تھے۔ ترکیہ میں تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھانے والی کمپنیاں بھی موجود تھیں۔ شکاگو کی کمیونٹی کیلئے زکوا فانڈیشن نے ایک لیڈرشپ لنچ کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ مقامی مسلم اور غیر مسلم تنظیموں کے لیڈرز کے ساتھ ساتھ، مقامی سینیٹرز، کانگریس مین اور مئیر آفس کے نمائندے بھی موجود تھے۔ ترکیہ کے شکاگو میں متعین کونسلر جنرل کے علاوہ دس سے زائد دیگر ممالک کے کونسلر جنرلز نے بھی شرکت کی۔خلافتِ عثمانیہ سے جدید ترکیہ تک کا سفر، اس دنیا کیلئے بہت اہم موضوع ہے۔ اس کنونشن میں اس کے مختلف پہلو اجاگر کرنے کیلئے کئی پروگرام رکھے گئے تھے۔ پاکستان، بنگلہ دیش، انڈیا، سنٹرل ایشیائی ممالک، لاطینی امریکہ کے ممالک اور افریقن امریکن کمیونٹیز کے بہت سے افراد نے اس ٹرکش فیسٹیول میں بھرپور شرکت کی۔ اردو مشاعرہ اور اردو غزلوں کے پروگراموں میں بھی خاصے لوگوں نے دلچسپی لی۔ بنگالی کمیونٹی کیلئے بھی دو پروگرام انکی اپنی زبان میں رکھے گئے تھے۔ روہنگا مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد یہاں موجود رہی اور اپنی زبان میں ایک پروگرام بھی کیا۔ بالکنز سے چیچنیا تک، تقریبا ہر سنٹرل ایشین ریاست کے لوگ نظر آئے۔ غزہ کیلئے ہونے والے فینڈریزنگ سیشن میں مرکزیاسٹیج پر فلسطینی جھنڈے لہرائے گئے تو شرکا نے جذباتی ہو کر غزہ کیلئے خوب نعرے لگائے اور فنڈز بھی دئیے۔
اس شہرِ شکاگو کے ساتھ میرے تعلقات بہت گہرے ہیں۔ جب بھی یہاں آنا ہوتا ہے تو مولانا یوسف اصلاحی کی یاد زیادہ ستاتی ہے، چونکہ اس شہر میں ہی ان سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ میں کنونشن سنٹر کے بورڈ روم میں بیٹھا، پرانی یادیں تازہ کر ہی رہا تھا کہ ڈاکٹر فہمیدہ بہن تشریف لے آئیں۔ ان سے تعلق چونکہ مولانا محترم کے حوالے ہی سے قائم ہوا تھا، اس لئے میرے یہاں ہونے کی اطلاع ملنے پر وہ تشریف لے آئیں۔انکی باتوں سے لگ رہا تھا کہ شاید مولانا محترم آج بھی ہمارے ساتھ ہوں۔
یہ تین روزہ ٹرکش فیسٹیول کنونشن میرے لئے اس لئے بہت اہم رہا کہ عمر کے اب اس دور میں بھی امریکہ کی مسلم کمیونٹی کیلئے ایک نئی مثبت ایکٹیو ٹی کے آغاز کا موقع مل گیا۔ پچھلے اڑتیس سال میں یہاں امریکہ میں رہتے ہوئے، اللہ تعالی نے جن اچھے کاموں میں شرکت کی توفیق دی، اس کا پورا ریکارڈ تو اس ذاتِ رب العالمین کے پاس ہی موجود ہے اور مجھے اسے یہاں دہرانے کی ضرورت بھی نہیں ہے لیکن بس اتنا تو کہا جا سکتا ہے کہ
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
اس ٹرکش فیسٹیول میں ایک پروگرام اقبال سوسائیٹی شکاگو کے زعما نے Intro to Iqbals Universal Message کے عنوان سے انگریزی میں رکھا۔ ڈاکٹر ٹیپو صدیقی صاحب نے اس میں گہری دلچسپی لی اور اس طرح اقبال اور ترکیہ کے خاص تعلق کو بہت اچھے انداز میں اجاگر کیا گیا۔
آخر میں اقبال کی مشہورِ زمانہ نظم غرہ شوال سے ایک اقتباس حاضر ہے۔
جس کو ہم نے آشنا لطف تکلم سے کیا
اس حریف بے زباں کی گرم گفتاری بھی دیکھ
ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
صورت آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ
شورش امروز میں محو سرود دوش رہ
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here