اپنا مکان

0
485
رعنا کوثر
رعنا کوثر

امریکہ ہو پاکستان ہو یا کوئی اور ملک ہر جگہ انسان بستے ہیں اور ہر جگہ دنیاوی آفات ومصائب سے سب کو واسطہ پڑتا ہے۔آپ یہ دیکھیں کے ابھی نیویارک میں بے حد موسلا دھار بارش ہوئی جس نے نہ صرف سڑکوں پر جل تھل مچا دیا بلکہ گھروں میں پانی گھس آیا لوگ دربدر ہوگئے اور نیویارک شہر کے لوگوں کو بھی حالات کا ایسا ہی سامنا کرنا پڑا جیسے کے نیویارک کے چھوٹے شہروں کواس بارش نے نقصان پہنچایا۔تباہ کن اثرات ابھی تک ہر جگہ ظاہر ہیں۔ اسی طرح اگر ہم افغانستان کے حالات دیکھیں تو انقلاب کے بعد جیسے کے مہاجرین مختلف ملکوں میں پھیل جاتے ہیں اسی طرح افغان مہاجرین کی بہت بڑی تعداد امریکہ پہنچ چکی ہے۔اور مختلف علاقوں میں ان کو پناہ دی گئی ہے جیسے کے ایریزونا اور دوسرے بڑے شہر۔ کرونا وائرس کا زور ابھی ختم ہوا ہے جس میں بے شمار لوگ لقمہ اجل بن گئے بہت سارے لوگوں کی اچھی خاصی روزی روٹی ختم ہوگئی اور وہ گھروں میں بیٹھ کر امداد کا انتظار کرنے لگے۔
کیلیفورنیا میں جنگل میں ایسی آگ لگی کے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ایسے میں لوگ اپنے گھروں سے نکال کر ہوٹلوں میں پہنچا دیئے گئے۔
یہ گھر اور رہنے کی چھت ہمارے لئے کتنی اہمیت رکھتی ہے ہم نہیں جان سکتے جب تک ایک مہاجر کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ نہ پہنچا دیئے جائیںاور کسی ہوٹل کی چھت کسی دوست کے گھر یا کسی آسمان تلے کیمپ میں لیٹ کر اپنے آپ کو بے چین نہ پائیں۔
کیا ہم جانتے ہیں کے گھر پیارا گھر چاہے وہ آپ کا ہو یا کرایہ کا ہو کتنی عافیت کی جگہ ہے ہمارے لئے اگر ہم ایک بڑے سے گھر میں رہتے ہیں جہاں بہت بڑا لان ہے۔بہت بڑے بڑے کمرے ہیں۔ہر طرح کی آرائش اور آسائش سے پر ہمارا گھر ہے۔اور صبح آنکھ کھولنے کے بعد ہم اس گھر کو نہیں بلکہ دیکھ رہے ہوتے ہم اپنے آرام دہ بہتر میں پڑے ہر اس چیز کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں جو ہم کو حاصل نہیں۔ہر اس شخص کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں جس سے ہم کو کسی وجہ سے گلہ ہوتا ہے چاہے اولاد ہو یا رشتہ دار یا دوست تو ہم اللہ کے ناشکرے بندے ہیں۔اور اس ناشکری کی وجہ سے ہی ہم اداسی کا شکار ہوتے ہیں۔اگر ہمارا گھر چھوٹا ہے ایک کمرے کا فلیٹ جہاں دل لگانا مشکل ہے ایک باتھ روم چھوٹا سا کچن بچے اور بڑے اس میں رہتے ہیں۔یہاں سے نکل کر بڑے گھر میں جانے کی گنجائش نہیں پھر بھی جب ہماری صبح آنکھ کھلتی ہے تو اپنے ہی گھر کے آرام دہ بستر میں ہم یہ نہیں سوچتے کے ہم اس گھر کا کرایہ دیتے ہیں کسی دوست کے گھر میں نہیں رہ ہے۔کسی مہاجر کیمپ میں نہیں پڑے۔اردگرد پیارے محبت کرنے والے سو رہے ہیں جن کی جدائی کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔اگر ہم اچھی اور مثبت سوچوں کے ساتھ اپنے دن کا آغاز کریں تو نہ صرف دن اچھا گزرے گابلکہ گھر میں برکت رہے گی سکون رہے گا۔
اوپر دی گئی تمام مثالیں کوئی پرانے زمانے کے قصے نہیں ہیں بلکہ یہ سب ہمارے اردگرد ہو رہا ہے۔ہم نہ صرف اس کو محسوس کر رہے ہیں بلکہ آئے دن یہ سب سن رہے ہیں دیکھ رہے ہیں اور ان لوگوں کا دکھ بانٹ تو نہیں رہے ہیں۔کیونکہ شاید ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کے کسی کی مدد کرسکیں مگر اپنی مدد تو کریں۔ان حالات میں اتنا محسوس کریں کے اگر ہمارے پاس رہنے کو چھت ہے جسے ہم اپنے مکان کا نام دیتے ہیں۔اگر ہمارے پاس کھانے پینے کی اشیاء ہیں اور اگر ہمارے پاس اپنی کمائی سے تن ڈھانکنے کو کپڑا ہے تو ہم کو خدا کا شکر ادا کرنا ہے اور سکون سے رہنا ہے۔اپنے گھر اپنے مکان اور اپنے فلیٹ کی اہمیت کو سمجھیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here