میں جب یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو شدت سے ایک شعر یاد آرہا ہے
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اس شعر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ مجاہد کو تیر و لفنگ اور اسلحہ کی حاجت نہیں ہوتی۔ وہ اپنے جذبے، ایمان اور پختہ ارادے کی بنیاد پر دشمن کیلئے خوف و شکستگی کی علامت ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ مجاہد و حق کے پرستار کی موت اور شہادت بھی دشمن پر لرزہ طاری رکھتی ہے۔ برصغیر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو دو سو سال قبل سامراج کیخلاف جدوجہد کے شہسوار ”گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے” کے نقیب سلطان ٹیپو شہید کے جسد خاکی سے برطانوی سامراج پر لرزہ طاری ہوا تھا۔ یہی صورت دو سو سال بعد مجاہد تحریک آزادیٔ کشمیر کی رحلت پر بھارتی غاصب سامراج اور اس کے ناکارہ و بزدل فوجیوں اور جن سنگھیوں کی بھی ہوئی۔ 92 سالہ سید علی گیلانی کے جسد خاکی سے اسقدر خوفزدہ تھے کہ ان کی تدفین کے مراحل کی تکمیل کو بھی اس شرح سے غتر بود کیا گویا زندہ مجاہد سے زیادہ مردہ سید علی گیلانی ان کیلئے شکست، ذلت و رسوائی اور تباہی کا باعث ہو گا۔ ”ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے”اور دم آخر ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الاللہ ، کشمیر بنے گا پاکستان” نعرہ لگانے والے مرد مجاہد کے انتقال پر پوری وادی میں کرفیو لگانے، موبائل و انٹرنیٹ سروس بند کر دینے اور سید علی کے جسد خاکی کو ورثاء سے چھین کر تدفین کرنے والے ظالموں، ہندوتاکے پجاریوں کو ذلت اور رسوائی پھر بھی نصیب ہوئی کہ سبز ہلالی پاکستانی پرچم کو ان ازلی پاکستان دشمنوں نے اپنے سر و شانوں پر اٹھا کر پاکستان کی فضیلت اور کشمیر کے پاکستان سے مضبوط رشتے و الحاق کو تسلیم کر لیا۔
نہرو، ماؤنٹ بیٹن اور ڈوگرہ مہاراج کی سازش ، شیخ عبداﷲ جیسی کٹھ پتلیوں اور مودی و آر ایس ایس کی ہندو پرستی و آرٹیکل 370, 35A کی تنسیخ کے باوجود آج بھی مقبوضہ کشمیر پاکستان ہمارا ہے کہ مؤقف سے گونج رہا ہے۔ 74 برسوں سے جاری جدوجہد آج بھی شد و مد سے جاری ہے۔ بھارتی جارحیت کتنی بھی بڑھ جائے، مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد افزوں سے افزوں تر ہو تی جاتی ہے۔ اگرمودی اور اس کی حکومت کو گمان ہے کہ سید علی گیلانی کی رحلت سے تحریک کمزور ہو گی یا اس پر قابو پایا جا سکتا ہے تو یہ محض خام خیالی ہے۔ کشمیر کا بچہ بچہ مودی کے غاصبانہ قبضے کیخلاف سراپا احتجاج ہے۔ سید علی گیلانی کے مشن کی تکمیل کیلئے مزید تیزی آئے گی۔ بالکل اسی طرح جیسے برھان وانی کی شہادت کے بعد جوش آزادی اور بڑھ گیا تھا۔
ہندو گردی، پاکستان سے ازلی دشمنی اور توسیع پسندی کے جنون میں دھت پاکستان پر جارحیت کا ارتکاب کرنیوالے بھارت نے پاکستان کیخلاف جو جنگی اور دہشت گردانہ حرکات کی ہیں ان میں کم از کم چار جنگیں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ہیں اور ان سب میں اسے ذلت اور شکست کا سامنا ہی رہا ہے۔ جنگ ستمبر 1965ء وہ محاذ آرائی تھی جو رات کے اندھیرے میں بزدل دشمن نے ہم پر مسلط کی تھی جس کو ہماری عسکری افواج نے غیو رو وطن کیلئے ہر قربانی دینے والے عوام کے ہمراہ نہ صرف دشمن کی بدترین شکست و حزیمت میں تبدیل کر دیا تھا بلکہ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی دھوتی گیلی کر دی تھی اور اسے سوویت یونین کے پاس جنگ بندی کیلئے بھاگنا پڑا تھا۔ ستمبر 1965ء میں کامیابی کا جشن یوم دفاع پاکستان اور قوم کے عزم و اتحاد کا اعادہ 56 برس سے ہماری نسلوں میں جاری و ساری ہے اور اس جذبے کا امین ہے کہ وطن کی حفاظت و سا لمیت کیلئے لہو کا آخری قطرہ بھی دیس کی امانت ہے۔ یوم دفاع و شہداء کے حوالے سے اس سال منعقدہ تقریب نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میری 65ء کی روشن یادوں کو تازہ کر دیا ہے۔ 6 ستمبر کی صبح تھی، ہم فیصل آباد میں رہتے تھے۔ میرے والد محکمہ پولیس میں فرائض انجام دیتے تھے۔ ہم سات بھائی اور ایک بہن (ایک ماہ کی ) تھے۔ جیسے ہی خبر آئی ، والد فوری طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے نکل گئے تھے۔ اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کی ریڈیو پر تقریر ”انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے” نے ساری قوم میں جوش و جذبے کو انتہا پر پہنچا دیا تھا۔ ریڈیو سے ”اے پتر ہٹاں تے نئیں وکدے” اور ”اپنی جان نذر کروں” جیسے پر جوش نغمے گونج رہے تھے۔ ہر شہر ، ہر گلی ہر قریہ میں جوشیلے، محب وطن لوگ وطن اور مجاہدوں سے محبت اور دشمن کیخلاف عمل کرنے کیلئے نکل آئے تھے۔ ہماری بہادر افواج نے دشمن کے شب خون کے پرخچے اڑا دئیے تھے۔لاہور جم خانہ میں جام فتح کا خواب عزیز بھٹی شہید نے چکنا چور کر دیا۔ بری فوج نے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا تھا۔ دشمن کا 1200 مربع میل کا علاقہ راجھستھان میں ہمارے جانبازوں نے فتح کر لیا تھا۔ چھب، جوڑیاں زیر نگیں آچکے تھے اور چونڈہ میں دشمن کے ٹینکوں کا بھوسا بن چکا تھا۔ ہمارے سمندر کے محافظوں نے دوارکا کے چیتھڑے اڑا دئیے تھے اور شاہنیوں نے نہ صرف فضاؤں میں بلکہ دشمن کے ہوائی اڈوں کا حلواڑہ بنا دیا تھا۔ یہ سب کچھ ریکارڈ ہے تاریخ کا حصہ ہے۔ ساری قوم کی طرح ہمارا جذبہ عروج پر تھا۔ سرگودھا ہمارے شہر سے قریب تھا۔ اپنے شاہینوں کی ساری کاوشیں اور فتح مندی کو ہم گھر کی چھت پر چڑھ کر دیکھتے تھے اورکامیابی پر نعرے لگاتے تھے۔ ایم ایم عالم کے پانچ جہازوں کو ایک منٹ میں تباہ کرنے کے ہم عینی شاہد ہیں اور اس موقع پر مٹھائیاں بانٹنے والوں میں بھی شامل ہیں۔ جذبہ جہاد و حب الوطنی کا یہ عالم تھا کہ ہم اپنے والد کی بندوق لے کر بلیک آؤٹ میں دشمنوں کیخلاف حفاظتی ڈیوٹی دیتے تھے۔ خبر آئی کہ دشمن کے چھاتہ بردار کھیتوں میں چھپے ہوئے ہیں ۔ پورا شہر لاٹھیاں اور جس کے پاس جو ہتھیار تھا لے کر کھیتوں کو چھانتا رہا، جس میں ہم بھی شامل تھے۔ یہی نہیں فیلڈ مارشل کی ایک پیسہ دس ٹینک اسکیم میں بھی ہم بھرپور شامل رہے۔ یہ جذبہ اور وطن سے محبت کا اظہار فیصل آباد میں ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر شہر ، قصبہ، گاؤں اور چپہ چپہ پر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سے کئی گنا فوج اور اسلحہ رکھنے والے دشمن کو شکست و ذلت سے دوچار کرکے ہمارے جانبازوں اور قوم نے فتح و نصرت حاصل کی۔ 1965ء کا یہ واقعہ ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ آنیوالی نسلوں کیلئے بھی فخر و اعزاز کا باعث ہمارا قومی سرمایہ ہے۔ الحمد اللہ آج بھی قوم اور ہمارے جانباز کامیاب اور سرخرو ہیں، فروری 2019ء کا معرکہ اس کی شہادت ہے کہ کیونکہ ”مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی”۔