پاکستان تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہاہے۔ معاشی بدحالی نے ملک کا ستیاناس کردیاہے۔ ڈالر دو سو ستر روپے کی انتہائی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ افراط زر پیدا ہوچکا ہے۔ ایک دن میں پینتیس روپے پٹرول کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ پٹرولیم کی قیمتوں میں پینتیس روپے یکمشت اضافہ سے ہر چیز مہنگی ہوچکی ہے۔ پی ڈی اے کا ملغوبہ آئیندہ دنوں عوامی غضب،جوتوں اور پتھروں کا سامنا کرے گا۔یہ لوگ نیب کے کیسوں اے تو بری ہوگئے۔منی لانڈرنگ سے بری ہوگئے۔ لیکن عوام کے گلہ میں آئی ایم ایف کا طوق ڈال دیا ہے۔ اقتصادی صورتحال نے لوگوں کی باینگ پاور کو ختم کردیا ہے۔ بجلی اور گیس کے بل عوام کی پہنچ سے دور ۔حکمران اور اپوزیشن دست وگریبان۔بیوروکریسی بے لگام۔ پاکستانی قوم اگر حالات بدلناچاہتی ہے۔ تو آپشن بدلنا ہوگا۔چوروں لٹیروں اور غیر سنجیدہ کوگوں سے جان چھڑاناہوگی۔ ملک کو دہشت گردی،مہنگائی، بیروزگاری میں گھیرا ہے۔ قومی لیڈر سیاست کھیلنے میں مصروف ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ تماشہ دیکھ رہی ہے۔ میڈیا نیگٹو کردار ادا کررہا ہے۔ پشاور دہشت گردی میں 100 سو سے زائد افراد شہید اور تقریبا دو سو چالیس شدید زخمی ہیں۔ سانخہ پشاور کی اندہناک دہشت گردی نے پوری قوم کو سوگوار کردیا ہے۔ میانوالی تھانے پر دہشت گردوں کا حملہ ۔ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال میں حالات خانہ جنگی کیطرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ لوٹ مار، ڈکیتیاں حکمران تو کرتے ھی تھے لیکن اب بیروزگار نوجوانوں نے ڈکیتیاں شروع کردی ہیں۔ نوجوان ڈگریوں کا کیا کریں۔ جب روزگار نہیں۔ حکمران اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مخالفین کی سرکوبی میں سرگرداں ہیں۔ مملکت خدادا میں جتنا لچا اتنا اچھا۔ پاکستان معاشرہ میں کردار،اخلاقیات دیانت و ایمانت بے وقعت اور بے توقیر ہیں۔ موجودہ دور میں جتنا بڑا مجرم اتنا ہی بڑا اعزاز۔ پی ٹی آئی۔ن لیگ۔ پیپلز پارٹی جمہوریت کش پارٹیاں ہیں۔ انکے اندر جمہوریت نہیں ہے۔ لیکشن نہیں ہیں۔ یہ کیسے ملک میں جمہوریت کی بات کرتی ہیں۔ جیسا دیس ویسا بھیس کے مصداق۔ جیسے لیڈر ویسی افسر شاہی۔ویسے ادارے۔ جو لوگ مشرف کے دور میں وزیر تھے۔ وہ پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر رہے۔ان میں سے کئی ن لیگ کے دور میں وزیر تھے۔ پھر پی ٹی آئی کے دور میں وزیر تھے۔ اگر وزرا کی لسٹ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ جو ماضی میں دسیوں بار وزرا رہے اور جو آج دسیوں بار وزیر ہیں۔ کیا یہ لوگ حالات بدلیں گے ؟ڈھائی کھرب روپے کی سبسڈی صرف اشرافیہ کے لئے۔ عوام تڑپنے اور سسکنے پر مجبور ۔ پاکستان میں ہر شہری کو آواز بلند کرنا چاہئے۔ 2020 کی اصلاحات ایکٹ : پارلیمنٹ کے ارکان کو پنشن نہیں ملنا چاہئے کیوں کہ یہ نوکری نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کی خدمت کے جذبے کے تحت ایک انتخاب ہے اور اس کے لئے ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی ہے مزید یہ کہ سیاستدان دوبارہ سے سیلیکٹ ہو کے اس پوزیشن پر آسکتے ہیں ۔ 2۔ مرکزی تنخواہ کمیشن کے تحت پارلیمنٹ کے افراد کی تنخواہ میں ترمیم کرنا چاہئے. ان کی تنخواہ ایک عام مزدور کے برابر ہونی چاہیئے۔ فی الحال، وہ اپنی تنخواہ کے لئے خود ہی ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنی مرضی سے من چاہا اضافہ کر لیتے ہیں۔ 3۔ ممبران پارلمنٹ کو اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے سرکاری ہسپتال میں ہی علاج کی سہولت لینا لازم ہو جہاں عام پاکستانی شہریوں کا علاج ہوتا ہے۔4۔ تمام رعایتیں جیسے مفت سفر، راشن، بجلی، پانی، فون بل ختم کیا جائے یا یہ ہی تمام رعایتیں پاکستان کے ہر شہری کو بھی لازمی دی جائیں۔ (وہ نہ صرف یہ رعایت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کا پورا خاندان ان کو انجوائے کرتا ہے اور وہ باقاعدہ طور پر اس میں اضافہ کرتے ہیں جوکہ سراسر بدمعاشی اور بے شرمی بیغیرتی کی انتہا ہے۔ 5۔ ایسے ممبران پارلیمنٹ جن کا ریکارڈ مجرمانہ ہو یا جن کا ریکارڈ خراب ہو حال یا ماضی میں سزا یافتہ ہوں موجودہ پارلیمنٹ سے فارغ کیا جائے اور ان پر ہر لحاظ سے انتخابی عمل میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہو اور ایسے ممبران پارلیمنٹ کی وجہ سے ہونے والے ملکی مالی نقصان کو ان کے خاندانوں کی جائیدادوں کو بیچ کر پورا کیا جائے۔ 6۔ پارلیمنٹ ممبران کو عام پبلک پر لاگو ہونے والے تمام قوانین کی پابندیوں پر عمل لازمی ہونا چاہئے۔ 7۔ اگر لوگوں کو گیس بجلی پانی پر سبسڈی نہیں ملتی تو پارلیمنٹ کینٹین میں سبسایڈڈ فوڈ کسی ممبران پارلیمان کو نہیں ملنی چائیے۔ 8۔ ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سیاستدانوں کے لئے بھی ہونا چاہئے. اور میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہونا چاہئے اگر میڈیکلی ان فٹ ہو تو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے۔ ٭ پارلیمان میں خدمت کرنا ایک اعزاز ہے، لوٹ مار کے لئے منافع بخش کیریئر نہیں ۔ ٭9۔ ان کی تعلیم کم از کم ماسٹرز ہونی چاہئے اور دینی تعلیم بھی اعلی ہونی چاہئے اور پروفیشنل ڈگری اور مہارت بھی حاصل ہو۔ اور NTS ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہو۔ 10۔ ان کے بچے بھی لازمی سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کریں۔ 11۔ سیکورٹی کے لیے کوئی گارڈز رکھنے کی اجازت نہ ہو۔ جوڈیشری اور پولیس کو مضبوط اور اکانٹیبلٹل کریں ۔اداروں میں رفارمز کریں۔پولیٹکل وکٹمائزیشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اسٹبلشمنٹ اپنے آپکو آئین سے ماوراہ سمجھتے ہیں۔ جرنیل تیس کڑوڑ کو غدار اور چھ لاکھ کو محب وطن سمجھتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بولنے اور لکھنے پر غداری کا مقدمہ درج ہوتا ہے۔
سیاسی پارٹیاں کمرشل ہو چکی ہیں۔ پارٹی عہدے اس شخص کو سئیے جاتے ہیں جو مالی لخاظ سے مضبوط ہوجو پارٹی قیادت پر پیسے لگاتا ہو۔ وہ قیادت کے قریب سمجھا جاتا ہے۔ جیسے ماضی کے اے ٹی ایم علیم خان اور جہانگیرترین ۔موجودہ ن لیگ میں کہوکھر برادران۔پیپلز پارٹی میں جاگیردار طبقہ۔بیشتر عوامی نمائیندے ایک طوائف سے کم نہئں۔یہ سیاسی طوائفیں پچاس پچاس کڑوڑ میں بکتی ہیں۔ جو پورے سسٹم اور پارلیمنٹ جو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ پاکستانی پالیٹیکس میں پیپلز پارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم کی شکل میں نفرت اور گندگی کی سیاست پہلے سے موجود تھی۔ جو انتقام پر یقین رکھتی تھی۔ مخالفین کو زندہ جلانا۔ جیلوں میں ڈالنا۔ نقصان پہنچانا ان کا وطیرہ تھا۔ لیکن ان پارٹیوں میں سے ایک پارٹی تشکیل پائی ۔ جسے اسٹبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔ پی ٹی آئی کی شکل میں ایک ایسا فرقہ تیار ہوا ۔جسے یوں مذہبی ٹچ کے ساتھ لانچ کیا گیا۔کہ جو خان کے ساتھ متفق نہیں وہ چور ڈاکو ،منافق، بے ایمان ہے۔ جو خان کے ساتھ ہے وہ پوتر،پاکباز،مومن ہے ۔محب وطن ہے۔ یہ طرز سیاست نہ اخلاقی ہے اور نہ دینی۔ یہ انداز سیاست پاکستانی معاشرے کو تباہی کیطرف لے جارہی ہے۔ پاکستانی قوم دہشت گرد تنظیم ایم کیو ایم کی شکل میں فاشسٹ جماعت کوبھگت چکی ہے۔ دہشت گرد، اجرتی قاتل اور کرپٹ ان پارٹیوں کو چلاتے ہیں۔ یہ سب پارٹیاں PTI ،PPP,Nawaz League,MQM,Fazal Rehman کی پارٹیوں میں جرائم پیشہ افراد ہیں۔ منی لانڈرز ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کو دیوالیہ کردیا ہے۔ عمران خان، زرداری، شہباز شریف کے گرد، چینی اور آٹا مافیا ہے۔ جو مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نیند کی گولی کھا کر سوئے ہیں۔ نظام انصاف،نظام پولیس کریش کر چکا ہے۔ صحافت پسند نا پسند کے گرد گہوم رہی ہے۔ ملکی اکانومی سسکیاں لے رہی ہے ۔ بزنس کمئونٹی مضطرب اور پریشان ہے۔ مزدور بدحال اور مہنگائی کے ہاتہوں بلک رہا ہے۔ ملک میں معاشی اور سیاسی افراتفری نے ملکی حالات کو اس نہج پر پہنچایا ہے ۔آلو، پیاز اور گندم کے ہزاروں کنٹینرز پانی میں کھڑے ہیں۔ جن کی LC نہیں کھل رہی۔عوام کو قطاروں میں بھی آٹا نہیں مل رہا۔حکمران سیاسی مخالفین کی خلاف سیاسی ویکٹمائزیشن کے خبط میں مبتلا۔ نیشنل میڈیا پر بیٹہے سیاسی مبصرین اور اینکرز سیاسی ہمدردیوں کی وجہ سے عوامی مسائل پر گفتگو نہیں کررہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ پاکستان ایک گائے ہے جو سب کو دودھ دیتی ہے۔ اب ان بد بختوں کو پتہ چلا ہے کہ یہ گوشت بھی دیتی ہے ۔ اور یہ ظالم درندے کاٹ کاٹ کر اس کا گوشت بھی کھا رہے ہیں۔ جرنیلوں کی جاگیریں ان سے واپس کی جائیں ۔سابق بیوروکریٹس، ججز ، سیاسی خانوادوں، پیروں،گدی نشینوں سے زمینیں، واپس لء جائیں۔ کیا کسی جج نے قوم کی خدمت کی ہے۔ کسی جرنیل نے کوئی جنگ جیتی ہے۔ کسی سیاسی گماشتے نے نظریہ پاکستان کا امپلیمنٹ کیا ہے۔ یا کسی پیر اور گدی نشین نے قوم کی رہنمائی کی ہے۔ جو انہیں لمبی لمبی جاگیریں۔ کوٹھیاں ، بنگلے اور مراعات دی جائیں۔ پاکستانی عوام کے دشمن ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور مالیاتی ادارے قرض دیتے وقت کڑی شرائط ، تیل، بجلی،گیس مہنگی کرنے کی ترغیب دے کر عوام پر مہنگائی بم گراتے ہیں۔ جس سے عوام بدحال اور ذلیل و رسوا ہورہے ہیں۔ کیا آئی ایم ایف اور مالیاتی ادارے چور اور ڈاکو حکمرانوں کو یہ کیوں نہیں کہتے کہ اپنے دورے، وزارتیں اور اخراجات کم کرو۔جو مفت میں ایم پی اے، ایم این اے۔سیکرٹریز ، بیوروکریٹس اور ججز پٹرول بھرتے ہیں۔ انکو ختم کرنے کا کیوں نہیں کہتے۔ کیونکہ یہ عوام دشمن پالیسیاں بناکر ھم جیسے ملکوں کو اٹھنے کا موقع نہیں دیتے۔ ریاست لوگوں کو تہذیب و تمدن سیکھاتی ہے۔ جہاں باپ، بیٹا،بیٹی، بھائی،بھتیجا، بھانجا، داماد، سمدھی، دوست سبھی حکومتی کشتی کے سوار۔ ریاست مدینہ کے پہریدار گنڈاپور کی ویڈیوز نے صادق و آمین اشرافیہ کے چہرے سے نقاب ہٹا دیا ہے۔
عوام بلک رہے ہیں مگر دلال میڈیا مریم کی آنیاں جانیاں دکھاتا رہا ہے۔ ستر کڑوڑ استقبالیہ بینرز پر لگائے گئے۔ کیا موجودہ حالات میں الیکشن مسائل کا حل ہیں۔ ؟ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک الیکشن رفارمز نہ ہوں۔امیدوار کی اہلیت کا تعین نہ کیا جائے ۔ سب ایک ٹیبل پر نہ بیٹھیں۔ الیکشن بے سود ثابت ہونگے۔ امیدوار کا باکردار،ایماندار اور کسی بھی قسم بددیانتی سے مبرا ہونا ضروری ہے۔ وگرنہ یہء چہرے۔ یہی نظام۔ یہی کرپشن،یہ لوٹ مار اور نفرت برقرار رہے گی۔ مریم نواز کااستقبال دیکھ کر انداز ہوا کہ مردہ قوم کی غیرت اور حیا بھی مر چکی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے 25جنوری کو اوورسیز پاکستانیوں سے اپنی خطاب میں کہا۔ پاکستان نہیں حکمران ناکام ہو گئے، اوورسیز ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ اوورسیز ہر سال 30ارب ڈالر بھیجتے ہیں، ترسیلات زر 50ارب ڈالر تک جا سکتی ہیں اوورسیز کا اعتماد بحال کرنے کی بجائے چند ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے ترلے ہو رہے ہیں۔ ملک پر مسلط حکمرانوں کی وجہ سے پاکستانی پاسپورٹ کی تنزلی 92 نمبر تک پہنچ گئی، صرف یمن، افغانستان اور صومالیہ کے پاسپورٹس گرین پاسپورٹ سے نیچے ہیں۔ جماعت اسلامی اقتدار میں آ کر ایسا پاکستان بنائے گی جس کے پاسپورٹ پر اوورسیز فخر کریں۔ اقتدار میں آ کر ملک کی پہلی جدید اوورسیز یونیورسٹی قائم کریں گے۔ جماعت اسلامی اوورسیز کے مسائل کے حل کے لیے قومی اسمبلی،سینیٹ میں آواز اٹھائے گی قارئین کرام!۔ میں مسلسل اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ جماعت اسلامی کے علاوہ اس ملک میں امن،سلامتی اورکرپشن سے پاک معاشرہ قائم نہیں ہوسکتا۔ قوم نے پیپلز پارٹی ۔ مسلم لیگ ،پی ٹی آئی اور ڈکٹیٹرشپ،سبھی دیکھ لیا۔ خدارا! اب وقت ضائع مت کریں ۔آئندہ الیکشن میں اپنا ووٹ جماعت اسلامی کو دیں تاکہ ملک امن و سکون کا گہوارا بنے ۔
٭٭٭