مسلم اُمہ ،لمحہ فکریہ!!!

0
72
شبیر گُل

قارئین !اگر پچیس کروڑ پاکستانی قیدیوں کا تئیس لاکھ غیرت مند فلسطینی قیدیوں سے موازنہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا۔کہ غیرت کو کوئی آنچ نہیں ۔ ایک طرف پچیس کروڑ پاکستانی سترسال سے غلیظ سسٹم کے قیدی ہیں دوسری طرف تئیس لاکھ فلسطینی،صہیونی قیدی ہیں۔ ستر سال سے صہونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جدوجہد کرنے والے جراتمند فلسطینی قیدیوں کو سلام ۔ جن کی سمندری، فضائی اور زمینی آزادی منقطع ہے۔جن پر ظلم و بربرئیت کی ہزاروں داستانیں ہیں۔ روزانہ معرکہ کربلا بپا ہوتا ہے ۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ ارض فلسطین میں خون آشام نہ ہو۔لاکھوں فلسطینیوں کی شہادتیں بھی غیرت مسلم کو زندہ نہیں کرسکیں ۔روایتی ہمدردی اور بزدل قیادتیں اسرائیل کو انسانیت کے خلاف جارحیت اور بربرئیت سے نہ روک سکے۔ اسرائیل ہر روز اُمت مسلمہ کی بزدل لیڈرشپ کے منہ پر طمانچہ رسید کرتا ہے لیکن غیرت مسلم مردہ ہے۔ کشمیر ہو یا فلسطین۔ ظلم و جبر کے خلاف نہتے ۔اپنی سرزمین پر قابض فورسز کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچے، بزرگ، عورتیں ذبیح ہوتے دیکھتے ہیں۔ سلامتی کونسل اقوام متفرقہ میں اسرائیل کو سپورٹ کے باوجود فلسطینیوں کے پایہ استقلال میں کبھی کمی نہیں آئی۔ اپنے حقوق کے جدوجہد انکے خون میں رچی بسی ہے۔سیکورٹی حصار ، خفاظتی دیواریں، جدید ہتھیار،مہلک اسلحہ ، قتل و غارت گیری ،نہتے فلسطینی اور کشمیری عوام کے حوصلے پسپا نہیں کرسکی۔ آئیے موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں کہ اچانک حماس کو کیا ہوگیا ہے؟ غزہ نامی جیل کے 23 لاکھ قیدیوں نے بالآخر فیصلہ کن معرکے کا فیصلہ کرتے ہوئے اسرائیل کو اسی کی زبان میں جواب دینے کی غرض سے طوفان الاقصیٰ نامی آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔اسرائیل پرتین اطراف سے کھلے حملے کے ساتھ ساتھ پانچ ہزار راکٹ بھی فائر کئے گئے، جس کے نتیجے میں لگ بھگ چھ سو اسرائیلی ہلاک جبکہ سولہ سو کے قریب گھائل ہیں ۔اسرائیل کی جانب سے جوابی حملوں میں ہونے والے نقصانات کا گراف بھی کافی بلند ہے۔ تقریبا پانچ سو فلسطینی شہید ھو چکے ہیں سینکڑوں بلڈنگز اور مکانات اسرائیلی حملوں میں تباہ ہوچکے ہیں ۔ جسے مغربی میڈیا نہیں دکھا رہا۔نیتن یاہو نے کہا ہے کہ فلسطینی غزہ کو خالی کردیں وگرنہ ملیا میٹ کردیا جائے گا۔اس بین الاقوامی غنڈے کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اس وقت غزہ کے اطراف میں دو بدو جنگ جاری ہے۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے مقبوضہ علاقوں میں کسی حد تک پیش قدمی بھی کی ہے اوراسرائیل جرنیل اور چھ سو صیہونی فوجیوں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیٹھے بٹھائے اچانک حماس کو کیا ہوگیا ہے کہ اس نے اسرائیل سے کھلی جنگ چھیڑ دی؟ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی قبضے کے بعد سے اب تک فلسطین کے بچے کھچے حصے کے دفاع کے لئے بہت سے گروہ میدان میں ہیں۔حماس سے قبل سابق فلسطینی صدر یاسر عرفات کی 1956 میں قائم کردہ الفتح نمایاں جماعت تھی۔الفتح مقبوضہ علاقوں پہ اسرائیل کا حق تسلیم کرتی تھی۔ مجموعی طور پر اس کی پالیسی فلسطینیوں کے امنگوں کی آئینہ دار نہ تھی، جس کی وجہ سے فلسطینی عوام میں بیچینی پائی جاتی تھی۔ اسی بے چینی کا نتیجہ تھا کہ نامور فلسطینی مزاحمتی رہنما شیخ احمد یاسین شہید نے 1987 میں ” حرک المقاوم الاسلامی” نامی تنظیم کی بنیاد رکھی، جسے زبانِ عام میں حماس کہا جاتا ہے۔حماس ہر اعتبار سے فلسطینیوں میں ایک مقبول جماعت ہے ۔ اسے دنیا کی منظم ترین مزاحمتی جماعت کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ اس تنظیم کا اپنا تعلیمی، رفاہی ،سیاسی اور عسکری نظام ہے ۔2006 کے انتخابات میں فلسطینی عوام نے حماس کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا، مگر حریفوں کی جانب سے اسے اقتدار سے محروم رکھنے کی ہرممکن کوششیں کی گئیں۔ وہ بیرونی طاقتیں جو صبح شام جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتیں، وہ سب بھی اس منصوبے کا حصہ تھیں۔ جب نرم گفتاری اور شیریں لہجے سے مسئلہ حل نہ ہوسکا تو 2007 میں حماس نے بزورِ بازو غزہ سے الفتح کو بیدخل کرکے وہاں پہ قبضہ کر لیا۔
غزہ پر حماس کے قبضے سے الفتح کو تو دھچکا لگا ہی مگر اسرائیل کے مفادات پہ بھی کاری ضرب پڑی۔ جواب میں صہیونی غاصب ریاست نے غزہ کی فضائی، سمندری اور زمینی ۔سخت اور کڑی ناکہ بندی کرکے اسے جیل میں تبدیل کردیا۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں تو نام نہیں مگر بلاشبہ 23 لاکھ سے زائد آبادی والے غزہ کو تاریخ کی سب سے بڑی جیل قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس جیل کے قریب پھٹکنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ احباب کو ترکی کی جانب سے غزہ بھیجے جانے والے بحری جہاز فریڈم فلوٹیلا کا حشر تو یاد ہوگا۔ غزہ کے ایک طرف میں سمندر، دو اطراف میں اسرائیل کا قبضہ شدہ خشکی کا حصہ ہے، جبکہ تیسرا خشک حصہ مصر کی سرحد سے ملحق ہے۔ اس جیل کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ جو حصہ مصر سے لگتا ہے، اس سے بھی فلسطینیوں کو آمد و رفت اور درآمد و برآمد کی اجازت نہیں ہے۔ اخوانی حکومت کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ اس نے فلسطینیوں کے لئے سفر ،کراسنگ یعنی اپنا بارڈر کھول دیا تھا۔ سیسی حکومت لائی ہی اس لئے گئی ہے تاکہ وہ اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرسکے، چنانچہ اب جب جنرل سیسی چاہتا ہے، بارڈر کھلتا ہے، جب چاہتا ہے، بند ہوجاتا ہے۔
اب آتے ہیں اس سوال کے جواب کی طرف کہ حماس نے اچانک سے اتنی بڑی جنگ کیوں چھیڑ دی۔ تفصیلات سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ حماس اور اہلِ غزہ پہ سخت ترین ناکہ بندی کی صورت میں اسرائیل کا ظلم دو ہزار سات سے جاری ہے۔ اسی وجہ سے غزہ کی ساٹھ فی صد آبادی بیروزگار ہے اور وہاں غربت عروج پر ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل جب چاہتا ہے فضائی حملے کرتا ہے اور جب چاہتا ہے ڈرونز کے ذریعے فضائی ٹارگٹ کلنگ کرتا ہے۔حماس کا آج کا حملہ عمل نہیں بلکہ ان تمام بدمعاشیوں کا انتہائی مجبوری کے عالم میں دیا جانے والا ردِعمل ہے۔
دوسری بڑی اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ پہلے فلسطینیوں کو دیگر عرب ممالک سے بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ تھیں، اب جب سے عربوں کو اسرائیل پہ پیار آیا ہے اور وہ دھڑا دھڑ اس سے سفارتی تعلقات استوار کرتے ہوئے اس کے قبضے کو سندِجواز فراہم کرنا شروع ہوئے ہیں تب سے فلسطینیوں کی رہی سہی امیدیں بھی بجھتی چلی جارہی ہیں۔ اب انہیں لگتا ہے کہ جو اژدھا انہیں سن اڑتالیس سے دھیرے دھیرے نگلتا چلا جارہا تھا ، اپنوں کی بیوفائیوں کی وجہ سے وہ اس قابل ہوچکا ہے کہ انہیں کسی بھی وقت یکایک ہڑپ کرلے۔ اس لئے اب مدمقابل سے فیصلہ کن ٹاکرا ناگزیر ہوچکا ہے۔ گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں۔ میں حماس کی اس جنگ کو انتہائی ناامیدی کے عالم میں کی جانے والی آخری اور حتمی کوشش کے طور پر دیکھتا ہوں۔
شاید آج نہیں تو کل یہ ٹمٹماتا نحیف و نزار چراغ بجھ جائے گا مگر اسے سلامِ عقیدت پیش کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میں خود کو ہمیشہ ان صفوں میں پاتا ہوں جن صفوں میں باغیرت اور باحمیت فلسطینی اور ان کے طرفدار کھڑے ہیں۔ سانحہ فلسطین سانحہ اندلس سے بڑا سانحہ ہے۔ چاروں طرف اپنے ہیں مگر پھر بھی یہ مظلوم اکیلے ہیں۔
اہلِ فلسطین! لگ بھگ اٹھاون مسلمان ممالک کی بے حمیتی کی وجہ سے چھٹانک بھر اسرائیل انکو مٹانے پہ تلا ہے اور شاید وقتی اور لمحاتی طور پر وہ اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب بھی ہو جائے مگر مخبر صادق ،امام الانبیا ۔آقا دو جہاں ،صلی اللہ علیہ و سلم نے تمہاری حتمی فتح اور یہود کی فیصلہ کن شکست، ذلت و ہزیمت کی بشارت چودہ سو سال پہلے دے رکھی ہے۔ ہمیں صبح دم چڑھتے سورج کی مانند یقین ہے کہ آخری، حتمی اور فیصلہ کن معرکے میں تمہی فتح یاب اور غالب رہو گے۔ ہم بہت دور ہونے کے باوجود تمہارے ساتھ رہیں، ہم دوش ہیں، ہم قدم ہیں اور ہم نفس ہیں ۔ بین القوامی میڈیا اسرائیلی ہلاکتوں کی بات تو کررہا ہے ۔ لیکن فلسطینی شہادتوں کی بات نہیں کررہا۔ یورپ امریکہ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف کامیاب اتحاد تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن مسلم امہ اور مسلم اتحاد فورس کی حیثیت زیرو سے زیادہ نہیں۔ او آئی سی حسب سابق بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔عرب لیگ کا اجلاس بلایا گیا ہے جو ایک مذمتی قرارداد سے آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ بیالیس مسلم ممالک پر مشتمل مسلم اتحاد فورس کے قیام کا کیا مقصد تھا ۔؟ کہ مسلمانوں کا ناحق خون بہتا دیکھیں۔ اسرائیلی جارحیت پر مذمتی بیان جاری کریں؟۔ دراصل یہ ایک فرنچائزڈ فورس ہے جو فلسطینیوں اور کشمیریوں پر ظلم و بربرئیت پر ٹس سے مس نہیں ہوتے۔گزشتہ ستر سال سے اسرائیلی فورسیز بربرئیت اور حیوانیت کر رہی ہے جس کی تاریخ انسانی میں کوئی مثال نہئں ملتی ۔جنرل راحیل شریف کی قیادت میں مسلم امہ کی بزدل فورس کیا روٹیاں توڑنے کے لئے قائم کی گئی تھی؟۔ اس ہجڑوں کی فورس میں میر جعفر اور میر صادق جیسے غدار بھرتی کئے گئے ہیں۔جو خاموش تماشائی ہیں۔ اسرائیل 68 48,63,کی جنگوں میں عرب اتحاد کو شکست دے چکا ہے۔لیکن اس بار حماس نے یقینا حیران کن سرپرائز دیا ہے۔جس سے اسرائیل کی دفاعی صلاحیت کی قلعی کھل گئی ہے۔ امعلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جنگ طویل ھوگی ۔حماس کے حریت پسند گوریلا جنگ کی تیاری میں ہیں ۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی اسرائیل سے پیار کی پینگیں امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ بحماس کے ترجمان خالد قدوسی کا کہنا ہے کہ ہم نے چھ سو اسرائیلی فوجی گرفتار کر لکی مخفوضمقامات پر منتقل کردیا ہے۔ تاکہ چار ہزار فلسطینی قیدی رہا کرائے جاسکیں۔ امریکہ نے اپنے ٹروپس اور بیڑی بیڑا اسرائیل کی مدد کے لئے روانہ کئے ہیں۔ طیب اردگان کا کہنا ہے کہ امریکہ اس جنگ سے دور رہے۔ایران نے حماس کی کھل کر حمایت کی ہے۔ انکے علاوہ مسلم ممالک کی لیڈرشپ ہومیوپیتھک بیان بازی سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حماس انسانی حقوق کا خیال کرے۔ مولانا کے اس بیان سے محسوس ھوا کہ مولانا اقتدار کی ہوس میں یہودیت کے علمبرادرا بن گئے ہیں ۔ انہیں فلسطینیوں پر مظالم یاد نہیں آرہے۔ ے شرم،بے غیرت اور بے حیا،عرب حکومتیں اسرائیل سے کمپرومائز کر چکی ہیں۔بھارت یورپ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ستاون ممالک اور انکی بزدل فوجیں کفار کے ہاتھوں بکی ھوئی ہیں ۔ لیکن عرب اور مسلم عوام میں فلسطینیوں کے لئے ہمدردی موجود ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here