خیبرپختونخواہ حکومت، فوج آمنے سامنے

0
6

اسلام آباد (پاکستان نیوز) آپریشن ”عزم استحکام” کے حوالے سے پاکستانی سیاست میں خلیج پیدا ہوئی ہے ، خیبرپختونخوا حکومت اور تمام صوبائی اپوزیشن جماعتیں آپریشن کے خلاف متحد ہوگئی ہیں ، جے یو آئی ف ، اے این پی نے بھی آپریشن کی مخالفت کر دی ہے جبکہ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور نے بھی اس حوالے سے قومی اور صوبائی کابینہ میں آواز اٹھانے کا اعلان کیا ہے ، حکومت خیبرپختونخوا نے آپریشن ‘عزم استحکام’ سے متعلق صوبائی کابینہ کا اجلاس بلانے پر غور شروع کردیا جس میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور صوبائی کابینہ کو مجوزہ کارروائی سے متعلق اعتماد میں لیں گے۔رپورٹ کے مطابق صوبائی کابینہ اجلاس میں آپریشن سے متعلق ارکان کے تحفظات دور کیے جائیں گے، اجلاس میں آپریشن کے تمام امور کا جائزہ لیا جائے گا۔پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے جب ‘عزم استحکام’ کے نام سے مسلح شدت پسندی کے خلاف ایک نئے آپریشن کا اعلان کیا گیا تو حزب اختلاف سمیت خیبر پختونخوا کے قبائلی عمائدین نے بڑے پیمانے پر اس مخالفت کی جس کی ایک اہم وجہ اس مجوزہ کارروائی سے جڑا ابہام اور سوالات تھے۔یہ واضح نہیں تھا کہ یہ کارروائی کہاں اور کیسے ہو گی جبکہ ساتھ ہی ساتھ یہ سوالات بھی موجود تھے کہ کسی بڑے پیمانے پر ہونے والی عسکری کارروائی کے اثرات کیا ہوں گے۔تاہم وزیر اعظم ہاوس کی جانب سے ایک وضاحت جاری کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ ‘ملک کے پائیدار امن و استحکام کے لیے حال ہی میں اعلان کردہ وڑن جس کا نام عزم استحکام رکھا گیا ہے، کو غلط سمجھا جا رہا ہے اور اس کا موازنہ گزشتہ مسلح آپریشنز جیسے ضرب عضب، راہ نجات سے کیا جا رہا ہے۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘گزشتہ مسلح آپریشنز میں ایسے معلوم مقامات، جو نوـگو علاقے بننے کے ساتھ ساتھ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے، سے دہشت گردوں کو ہٹایا گیا اور ان کارروائیوں کے لیے مقامی آبادی کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور متاثرہ علاقوں سے دہشتگردی کی مکمل صفائی کی ضرورت تھی تاہم بیان میں دعوی کیا گیا ہے کہ ‘ملک میں اب ایسے کوئی نوـگو علاقے نہیں کیونکہ دہشت گرد تنظیموں کی پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر منظم کارروائیاں کرنے یا انجام دینے کی صلاحیت کو گزشتہ مسلح آپریشنز سے فیصلہ کن طور پر شکست دی جا چکی ہے اور اس لیے بڑے پیمانے پر کسی ایسے فوجی آپریشن پر غور نہیں کیا جا رہا جہاں آبادی کی نقل مکانی کی ضرورت ہو گی۔وزیر اعظم آفس کی جانب سے جاری وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘عزم استحکام پاکستان میں پائیدار امن و استحکام کے لیے ایک کثیر جہتی، مختلف سیکیورٹی اداروں کے تعاون اور پورے ریاستی نظام کا مجموعی قومی وڑن ہے جس کا مقصد نظرثانی شدہ قومی ایکشن پلان، جو کہ سیاسی میدان میں قومی اتفاق رائے کے بعد شروع کیا گیا تھا، کے جاری نفاذ میں ایک نئی روح اور جزبہ پیدا کرنا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ ‘عزمِ استحکام کا مقصد پہلے سے جاری انٹیلیجنس کی بنیاد پر مسلح کارروائیوں کو مزید متحرک کرنا ہے تاکہ دہشت گردوں کی باقیات کی موجودگی، جرائم و دہشت گرد گٹھ جوڑ کی وجہ سے ان کی سہولت کاری اور ملک میں پرتشدد انتہا پسندی کو فیصلہ کن طور پر جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے اور اس سے ملک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لیے مجموعی طور پر محفوظ ماحول یقینی بنایا جا سکے گا جس میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے پہلے سے جاری کارروائیوں کے علاوہ سیاسی، سفارتی، قانونی اور معلوماتی پہلو شامل ہوں گے۔وزیر اعظم آفس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘ہم سب کو قومی سلامتی اور ملکی استحکام کیلئے مجموعی دانش اور سیاسی اتفاقِ رائے سے شروع کئے گئے اس مثبت اقدام کی پزیرائی کرتے ہوئے تمام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر غیر ضروری بحث کو بھی ختم کرنا چاہیے تاہم اس اعلامیے کے بعد کیا اس آپریشن سے جڑا ابہام اور مخالفت دور ہو گی یا نہیں، یہ اب تک واضح نہیں ہے۔یاد رہے کہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے سنیچر کو نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کی صدارت کرتے ہوئے اس آپریشن کی منظوری دی تھی جس میں وزیراعظم کے علاوہ ملک کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور آرمی چیف بھی موجود تھے۔وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس حد تک عندیہ ضرور دیا تھا کہ ‘خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سکیورٹی کی صورتحال انتہائی خراب ہے، اس وقت سب کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں ڈیرہ اسماعیل خان، کرک، بنوں، ٹانک، لکی مروت، کرم، اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقے شامل ہیں۔ ان علاقوں میں کچھ عرصے سے بدامنی کے خلاف امن جرگے، کانفرنسز اور اجتماعات کا سلسلہ جاری ہے تاہم یہاں کسی نئے فوجی آپریشن کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ہم نے ان علاقوں میں مقامی افراد، سماجی کارکنان، قبائلی عمائدین سے بات کر کے ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کی جن کی بنا پر وہ کسی قسم کے فوجی آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹیڈیز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کے واقعات میں مسلسل اور تشویشناک حد تک اضافہ ہوا۔ اگر حالیہ عرصے کے دوران پیش آنے والے واقعات کا ہی جائزہ لیا جائے تو 9 جون کو لکی مروت میں ایک فوجی کپتان سمیت سات اہلکار دھماکے میں ہلاک ہوئے جبکہ 27 مئی کو خیبر کے علاقے میں پانچ فوجی اہلکار شدت پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 26 اور 27 مئی کے دنوں میں 23 مسلح شدت پسندوں کو پشاور، خیبر اور ٹانک کے علاقوں میں ہلاک کیا گیا۔بی بی بی سی کی جانب سے پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے بھی رابطہ کیا گیا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ یہ آپریشن کہاں ہو گا اور اس کی کیا تفصیلات ہیں اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو کیسے دور کیا جائے گا تاہم آئی ایس پی آر کی جانب سے اب تک جواب موصول نہیں ہوا ہے۔مگر پہلے ایک نظر دوڑاتے ہیں کہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اس فوجی آپریشن کی کیوں مخالفت کر رہی ہیں۔پشتون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم آپریشن کی مخالفت اس وجہ سے کرتے ہیں کہ اس سے پہلے دو لاکھ گھر تباہ ہوئے ہیں اور لوگ آج تک گھر تعمیر کرنے کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو گئے اور فوجی آپریشن کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں 36 بازار مسمار کیے گئے۔’منظور پشتین کے مطابق ‘مقامی لوگ امن چاہتے ہیں مگر وہ دیرپا امن کے خواہاں ہیں۔’ منظور پشتین کے مطابق ‘ماضی میں جن لوگوں کے خلاف آپریشن کیا گیا وہ مزید مضبوط ہو گئے ہیں۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ پہلے ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشنز کا حساب دیا جائے کہ 800 سے زیادہ فوجی پوسٹوں کے ہوتے ہوئے امن کیوں نہیں قائم ہو رہا۔’ انھوں نے کہا کہ ‘کسی بھی نئی مہم جوئی سے قبل مقامی آبادی کو اعتماد میں لیا جائے کیونکہ ان کا بھی کوئی حق ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here