گریٹر اسرائیل کی جانب اہم پیش رفت سعودیہ سمیت 9ممالک معاہدے کے لئے تیار ٹرمپ

0
309

نیویارک (پاکستان نیوز) صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب سمیت مزید 9 مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ اتحاد کر سکتے ہیں ، وائٹ ہاﺅس کے لان میں صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے ٹرمپ نے بتایا کہ میرے خیال میں 7، 8 اور 9 اور مسلم ممالک ہو سکتے ہیں جوکہ مستقبل میں اسرائیل کے ساتھ اتحاد کر سکتے ہیں ، اپنے خطاب کے دوران کچھ لمحے وقفے کے بعد ٹرمپ نے صحافیوں سے بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے سعودی کنگ سے بات کی ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ بہت بڑی بات بلکہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ اسرائیل کے سنگ میل معاہدوں کو ’نئے مشرق وسطی کا آغاز‘ کہہ کر خوش آمدید کیا ہے،ٹرمپ نے یہ بات وائٹ ہاو¿س میں دونوں خلیجی ریاستوں کے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدوں پر دستخط کی تقریب میں کہی ،سنہ 1948 میں اسرائیل کے وجود کے آنے کے بعد یہ دونوں خلیجی ریاستیں اسے تسلیم کرنے والے تیسرے اور چوتھے عرب ممالک ہیں۔ ٹرمپ کو امید ہے کہ دوسرے ممالک بھی ان کی پیروی کریں گے لیکن فلسطینیوں نے زور دیا ہے کہ باقی ممالک ایسا نہ کریں۔اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو نے یہ کہتے ہوئے ان معاہدوں کو خوش آمدید کہا کہ یہ دن تاریخی طور سے بہت اہم ہے، یہ امن کے ایک نئے آغاز کی علامت ہے لیکن فلسطینی رہنما محمود عباس نے کہا ہے کہ مقبوضہ علاقوں سے صرف اسرائیلی انخلا ہی مشرق وسطیٰ میں امن قائم کر سکتا ہے۔واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان باہمی تعلقات قائم کرنے کیلئے امن معاہدہ 13اگست کو طے پایا تھا ، معاہدے کے تحت اسرائیل مزید فلسطینی علاقے ضم نہیں کرے گا، دو طرفہ تعلقات کے لیے دونوں ممالک مل کر روڈ میپ بنائیں گے۔معاہدے کے مطابق امریکا اور متحدہ عرب امارات، اسرائیل سے دیگر مسلم ممالک سے بھی تعلقات قائم کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے، اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے والے ممالک کے مسلمان مقبوضہ بیت المقدس آ کر مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھ سکیں گے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ابوظبی کے ولی عہد اور یو اے ای کے ڈپٹی سپریم کمانڈر شہزادہ محمد بن زاید النہیان نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ تاریخی پیش رفت مشرق وسطیٰ میں امن کو آگے بڑھائے گی۔برطانوی میڈیا کے مطابق معاہدے کے تحت اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو ضم کرنے کے اپنے منصوبوں کو معطل کردے گا۔اماراتی خبر ایجنسی کے مطابق معاہدے کے تحت یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان سیکیورٹی اور توانائی کے شعبے میں تعاون کو فروغ دیاجائےگا جب کہ دونوں ممالک کئی شعبوں میں پہلے ہی تعاون کررہے ہیں۔خیال رہے کہ 1948ءمیں اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد سے کسی عرب ملک کی جانب سے باضابطہ طور پر یہ تیسرا معاہدہ ہے، اس سے قبل مصر نے 1979 اور اردن نے 1994 میں اسرائیل سے امن معاہدہ کیا تھا۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے فیصلے کے بعد اسرائیل کی پہلی کمرشل پرواز31اگست کو ابوظہبی پہنچی تھی جس نے اسرائیل کے بانی اور پہلے وزیراعظم بن گوریان کے نام سے منسوب ائیرپورٹ سے اڑان بھری اور سعودی عرب کی حدود سے ہوتی ہوئی ابوظہبی پہنچی۔ تل ابیب سے اڑان بھرنے والی اسرائیل کی پرواز اے آئی ای آئی 971 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور سینئر مشیر جیرڈ کشنر اور اسرائیل کے قومی سلامتی کے مشیر میئر بن شبات سوار تھے۔ اس موقع پر جیرڈ کشنر نے کہا کہ یقینا یہ ایک تاریخی پرواز ہے لیکن اس سے بھی کہیں زیاہ ہمیں امید ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ کیلئے ایک تاریخی سفر کا آغاز ہے۔ایک ٹویٹ میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس پرواز کو ”امن کے بدلے امن“ کی ایک مثال قرار دیا اور کہا کہ اس سے ہمارے اس روایتی موقف کی عکاسی ہوتی ہے کہ پڑوسی عرب ممالک سے دوستی کیلئے لازمی نہیں کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقے واپس کرے۔امریکی ثالثی میں طے پانے والی ڈیل کے تحت جواب میں نیتن یاہو نے غرب اردن میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اپنا فیصلہ مو¿خر کرنے کا اعلان کیا تھا۔پاکستان نے متحدہ عرب امارت پر اپنے اقتصادی انحصار کے باعث نہایت محتاط ردعمل دیا اور کہا کہ اس فیصلے کے ”دور رس اثرات“ نکلیں گے تاہم پاکستان فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کو سامنے رکھتے ہوئے آگے بڑھے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here