آج میں اس وقت حرمین شریفین امام حسین علیہ السلام و حضرت عباس علیہ السلام کی زیارات کے بعد علمدار کربلا علیہ السلام کے روضہ کے سامنے بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ اہل عراق میں کتنی بڑی خوبیاں تھیں کہ چھ اماموں نے انکی سرزمین کو اپنے آخری وطن کے طور پر اختیار کیا ۔ ہمارے بارہ اماموں میں سے چھ یہاں مدفون ہیں اور آخری امام عج کا دارالخلافہ اور بیت الشرف بھی یہیں ہوگا ۔ اس وقت رات کے دو بجنے کو ہیں اور کھوے سے کھوا چل رہا ہے ۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں۔ شب جمعہ کربلائی کھچ کھچ کر کربلا آتے ہیں۔ اور شعبانیہ میں بھی کئی حج و عمرہ برابر زائرین یہاں پہنچتے ہیں جو آجکل کے ایام ہیں ہم چار دہائیوں سے زیادہ سے مشرف بہ حج ہوتے ہیں۔ نہ ایسا خلوص اہل حجاز میں دیکھا ہے نہ ہی اخلاق و ایثار۔ ہم اہل حجاز کے بھی شکرگزار ہیں کہ وہ حجاج و معتمرین کی حسب استطاعت خدمت کرتے ہیں مگر اہل عراق کا جواب نہیں ہے ۔ اللہ گواہ ہے میری شرعی ذمہ داریاں نہ ہوں تو میں باقی ماندہ زندگی زائرین ائمہ اطہار علیہم السلام کربلائیوں۔ نجفیوں، کاظمیوں اور سامرائیوں کی جوتیاں جوڑنے میں گزار دوں۔ تھوڑی دیر پہلے میں اپنے کچھ احباب کے ساتھ زیارات پڑھ کے گیا تھا دن پھر زید شہید علیہ السلام اور سیدہ شریفہ س بنت امام حسن علیہ السلام کی زیارات کرکے آئے تھے ۔ کل دن بھر کوفہ کی زیارات مکمل کی تھیں۔ سفیر حسین حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام، سیدہ خدیجہ س بنت امام علی علیہ السلام ، حضرت امیر مختار علیہ الرحمہ و حضرت ہانی بن عروہ علیہ الرحمہ ، مسجد سہلہ و مسجد کوفہ و وادی السلام کی زیارات کی تھیں اور چار روز سے نجف اشرف میں تو حاضری ہو ہی رہی تھی تاہم تین گھنٹوں میں ہی آنکھ کھل گئی اور دل نے چاہا کہ تین چار گھنٹے اور حرمین کی برکت سے عبادت میں گزار لیے جائیں ۔ یہ تحریر بھی عبادت سمجھ کر لکھ رہا ہوں۔ اس وقت ہر طرف سرکار سید الشہدا علیہ السلام کے لنگر چل رہے ہیں، نیاز یں بٹ رہی ہیں ، حاضریاں تقسیم ہو رہی ہیں اور شہنشاہ وفا علیہ السلام کی سبیلیں لگی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں حج کے دوران جیسے جیسے حج قریب ہوتا ہے اہل حجاز اشیا کی قیمتیں بڑھاتے جاتے ہیں ناز نخرے بڑھتے جاتے ہیں اور یہاں شعبانیہ محرم سفر عاشورا اربعین قریب ہوتے ہیں تو کھانے والے کم پڑ جاتے ہیں۔ بھوکے پیاسے شہید ہونے والوں کی نیاز حاضری اور سبیل کم نہیں ہوتی ہے ۔ اور تواضع فروتنی پڑھ جاتی ہے ۔ اہل عراق کا اخلاق بھی دیدنی ہے۔ زائیرین کیلئے بچھ جاتے ہیں ۔ حج سے کئی برابر زیادہ زائرین ہیں کوئی شرطہ کسی کو مارتا نہیں ، کوئی خادم گھورتا نہیں ہے ، کوئی متولی ڈانٹتا نہیں۔ کسی کیلئے ہٹو بچو کی آوازیں نہیں آتیں ایسے محسوس ہو رہا ہے کربلائی کا ہر زائر وی آئی پی پروٹوکول سے جنت الحسین علیہ السلام میں آ جا رہا ہے۔
واقعا افتخار عارف نے درست کہا
بس اک پل کی تھی حکومت یزید کی
صدیاں حسین کی ہیں زمانہ حسین کا۔
رات جب امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں گئے تو یوم ولادت ہم شکل پیغمبر علی اکبر علیہ السلام کی مبارک باد سرکار کو پیش کی اور سرکار غازی علیہ السلام کو بھی انکے شاگرد کی ولادت کے دن کی مبارکباد کہی اور دونوں سے عیدی بھی مانگی کہ ہمارے گناہ بخش دیے جائیں اور ہم سے توقع رکھنے والوں کی دعا ئیں قبول ہو جائیں۔ ہمارے مرحومین بخشے جائیں اپنے دوست احباب اعزا و اقربا کیلئے ابھی ابھی نیابت میں زیارت بھی پڑھی ہے ۔ دعائیں بھی کیں۔ مریضوں کو بھی یاد رکھا اسلیے کہ عرشیوں فرشیوں کے طبیب کی نگری میں پیٹھا ہوں حضرت علی اکبر علیہ السلام و حضرت علی اصغر علیہ السلام مکی بھی زیارت پڑھی جو اپنے بابا کے پہلو اور سینہ پر تشریف فرما ہیں ۔ گنج شہییداں میں حضرات قاسم ، عون، محمد، سات فرزندان مولائے متقیان، اٹھارہ جوانان بنی ہاشم علیہم السلام اور انصار حسینی کی خدمت میں سلام عقیدت پیش کیا۔
آخر مضمون میں اتنا لکھونگا
کہانی بس اتنی سی ہے
یزید تھا حسین ہے
باقی آئندہ
میری آج کی تحریر پر مجھے اتنا فخر ہے کہ بقول ڈاکٹر منظور رضوی
اس خط کو کھولیے گا دیکھ بھال کے
کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے
٭٭٭ا