ہمارے پیارے ملکِ پاکستان میں انتخابات کے دو ہفتے بعد بھی فرمان یعنی مینڈیٹ کی جنگ جاری و ساری ہے۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر کسی نے کے ماشل لا کا یہ آڈیو کلپ شئیر کیا، جس کا آغاز کچھ اس طرح ہوا۔صبح کے چھ بجے ہیں۔آج منگل ہے، رجب کی سترہ اور جولائی کی پانچ تاریخ۔ یہ ریڈیو پاکستان ہے ۔ اب آپ ناہیدہ بشیر سے خبریں سنئے، اس تاریخی کلپ میں یہ خبر بہت واضح ہے کہ کے سیاسی بحران کے دوران، مزاکرات کرنے والے سیاست دان، ایک معاہدے پر متفق ہو چکے تھے۔ پروفیسر عبدالغفور اور عبدالحفیظ پیرزادہ صاحبان، دو جولائی کو تیار ہونے والی دستاویز کو آخری شکل دینے والے تھے اور وزیرِ اعظم بھٹو صاحب، اس پر دستخط کرنے کیلئے بھی بالکل تیار تھے لیکن اسی بلیٹن کے دوران، ناہیدہ بشیر صاحبہ نے قوم کو یہ خبر سنا کر کہ فوج نے پورے ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے یہ اطلاع بھی دے دی کہ وزیراعظم سمیت، پی پی پی اور پی این اے کے لیڈر حفاظتی تحویل میں لے لئے گئے ہیں۔ قصہ تمام شد۔
مینڈیٹ کے حصول کی جدوجہد کی تازہ قسط میں، دو چار دن پہلے، اسلام آباد میں ایک شام ایسی بھی گزری کہ بوٹ کی چاپ کی آواز انتہائی واضح انداز میں سنائی دینے لگی تھی۔ فیصلہ ساز عناصر کی، پچھلے بائیس ماہ کی شبانہ روز کوششوں کے باوجود، حالات کو کنٹرول کرنا دشوار لگ رہا تھا۔ بلڈی سولینز، فارم کے نتائج کی بنیاد پر بھی حکومت سازی کیلئے آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ اہلِ سیاست، الیکشن کمیشن اور عدلیہ عظمی کو ڈرانے کیلئے چیف کمشنر صاحب کا ضمیر جگایا گیا۔ سیاست دانوں پر دبا بڑھانے کیلئے، کچھ صحافیوں کو جعلی بیلٹ پیپرز چھاپنے والی پرنٹنگ پریس کا سراغ بھی مل گیا۔ اندرونِ سندھ میں دھرنوں کی اچانک میڈیا کوریج بھی شروع ہو گئی۔ لیکن اس سب کے باوجود، آٹھ فروری کے ووٹرز کا اتنا خوف چھایا رہا کہ جدی پشتی سیاست دانوں کی ٹانگیں کانپتی رہیں۔ دوست احباب بتاتے ہیں کہ اسلام آباد کے حساس علاقوں میں غیر معمولی نقل و حرکت دیکھنے میں آئی اور صاف نظر آرہا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ بالآخر، آدھی رات کے گھپ اندھیرے میں ایک تاریخی پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں نیم وا آنکھوں کے ساتھ چند بے رونق چہرے، ایک اندھیرے کمرے میں، چند پرانے کیمروں کے سامنے براجمان کئیے گئے اور ان بے چاروں سے حکومت سازی پر متفق ہونے کا اعلان کر وا لیا گیا۔ بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم بچپن میں والدین کی غصیلی آنکھوں کی تاب نہ لا کر وعدہ کیا کرتے تھے کہ آئندہ کوئی شرارت نہیں کریں گے۔ بہرحال، اس اعلانِ حکومت سازی کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ کچھ عرصہ کیلئے ہر طرف پھیلی ہوئی عدمِ استحکامی کو ذرا سا استحکام حاصل ہو گیا۔ ارتضی نشاط صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ!
کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے
کچھ کر نہیں سکتے تو اتر کیوں نہیں جاتے
وطنِ عزیز کی دگرگوں معاشی صورتحال کی وجہ سے ایک مستحکم اور ہر دلعزیز حکومت کا قیام انتہائی مشکل نظر آرہا ہے۔ پھر نو فروری کے سانحہ مینڈیٹ چوری کے بعد، ماضی کی قابلِ اعتماد اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا باقی ماندہ عزت و وقار کھو چکی ہے۔ دونوں بڑے حکمران خاندان، ایک طرف تو عوام کی نظروں میں چور و ڈاکو ثابت ہو چکے ہیں اور دوسری طرف اب سیاسی تنہائی کا شکار بھی ہیں۔ انتظامی طاقت کے زور پر حکومت کرنا، زیادہ عرصہ تک ممکن نہیں لگ رہا۔ اس گھمبیر صورتحال میں، امید کی کرن، پاکستان کے باشعور عوام ہیں جو کہ دن بدن اپنی حقیقی آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ شہری آبادی ہو یا دیہی، پڑھا لکھ فرد ہو یا ان پڑھ، مرد ہو یا عورت، نوجوان ہو یا عمر رسیدہ، شمالی ہو یا جنوبی، مذہبی ہو یا لبرل، اورسیز ہو یا مقامی، غرض ہر طرح کا پاکستانی اپنے مستقبل کے فیصلے اب خود کرنا چاہتا ہے۔ بین الاقوامی طاقتوں کے دست نگر رہنا، اب ان کیلئے ممکن نہیں۔ اس میں اب کوئی شک نہیں کہ Status Quo کو برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لوگ کسی ایک سیاسی پارٹی پر بھروسہ کرنے کی بجائے، ان پارٹیوں میں موجود مختلف لیڈروں کو میرٹ کی بنیاد پر پرکھ رہے ہیں۔ بڑھتا ہوا یہی سیاسی شعور ہی امید کی وہ کرن ہے، جو جلد ہی پاکستان کو بلندیوں کی اس معراج تک پہنچائے گا جس پر باقی اقوام رشک کریں گی۔ ان شااللہ۔
حضرتِ کلیم عاجز کی وہ غزل جو انہوں نے اندرا گاندھی کے گوشِ گزار فرمائی تھی۔
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
دن ایک ستم، ایک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو، دشمن کو بھی تم مات کرو ہو
ہم خاک نشیں، تم سخن آرائے سرِ بام
پاس آ کے ملو، دور سے کیا بات کرو ہو
ہم کو جو ملا ہے وہ تمھیں سے تو ملا ہے
ہم اور بھلا دیں تمھیں، کیا بات کرو ہو
یوں تو ہمیں منہ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
بکنے بھی دو عاجز کو جو بولے ہے، بکے ہے
دیوانہ ہے، دیوانے سے کیا بات کرو ہو
٭٭٭